1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. عالم برزخ سےسینٹ ویلنٹائن کا خط

عالم برزخ سےسینٹ ویلنٹائن کا خط

مجھے کل واٹس اپ پر ایک میسج ملا جس کو پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ آپ لوگ حیران مت ہوں یہاں سگنل بہت اچھے آتے ہیں اور وائے فائی کی سپیڈ کا توکوئی جواب ہی نہیں، نیٹ ورک ڈاون بھی نہیں ہوتا۔ فیکڑیاں اور آلودگی نہ ہونے کی وجہ سے موسم اور آب و ہوا بھی بہت صاف اورشفاف ہے، جس کی وجہ سے سگنل بھی ڈراپ نہیں ہوتے۔ جب روم کے بادشاہ " کلاڈیس دوم" نے مجھے قتل کروانے کا حکم دیا تھا تب مجھے تکلیف تو بہت ہوئی اور بادشاہ پر غصہ بھی آیا تھا، لیکن اب بادشاہ کی تعریف کرنے کا بے اختیار دل کرتا ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے آج 17 سو سال گزرنے کے باوجود پریمی مجھے ہر سال باقائدگی سے یاد کرتے ہیں۔ صرف پریمی ہی نہیں گل فروشوں کے دل سے بھی میرے لئے دعائیں نکلتی ہیں کیونکہ وہ پچاس روپے والا پھول پانچ سو میں بیچ رہے ہوتے ہیں، پھولوں کی قیمت کے حوالے سے میں نے "تکا" مارا ہے یہ مت سمجھئے گا کہ میں خود باقائدگی سے خرید کر کسی کو دیتا رہا ہوں۔ اسی طرح چاکلیٹ کی سیل کا گراف اچانک اونچا ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کے کلینک بھی آباد ہونے کی امید بڑھ جاتی ہے۔ اور میرا تو خیال ہے کہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں نسوار کی سیل میں بھی قابل قدر اضافہ ہوجاتا ہو گا۔ کیونکہ عاشق اپنی معشوقہ کو وہی چیر تحفہ میں دیتا ہے جو اسکو سب سے زیادہ پسند ہو اور ہمارے پٹھان بھائیوں کو نسوار اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ اس لئے وہ پھول یا چاکلیٹ کی بجائے نسوار دینے کو ترجیح دیتے ہوں گے، شائد اس دن کی مناسبت سے دل کی شکل کی نسوار بھی مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہوگی۔ اقتصادی سرگرمیوں میں اس قدر اضافے سے سٹاک ایکس چینج کے انڈیکس میں بھی برھوتری کی بھی امید بڑھ جاتی ہے۔ میں اپنی بات پر واپس آتا ہوں۔

میسج میں لکھا تھا۔ "ویلنٹائن ڈے پر لڑکیاں جنازے نکالتی ہیں اپنے خاندان کی عزت کا"۔ اس فقرے میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کا بھی اضافہ کر دینا چاہیے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ مشرقی لوگ بڑے کمال کے لوگ ہوتے ہیں، ہم مغرب والوں کے رواجوں کو، ہماری عادتوں کو، ہماری رسموں کو، ہمارے رنگوں کواس طرح اپناتے ہیں کہ ہم مغرب والوں کی حیرت ہی ختم نہیں ہوتی۔ ہم مغرب والوں سے زیادہ اس تہوار پر مشرق کے لوگوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ بازار دلہن کی طرح سرخ رنگ سے سج جاتے ہیں، گل فروشوں کی دکانوں پر رونقیں لگ جاتی ہیں، سکولوں اور کالجوں میں حاضری کم ہو جاتی ہے، پارک ویران اور ویرانے آباد ہوجاتے ہیں، پولیس والوں کی چاندی ہو جاتی ہے، لوگ لال رنگ کے ملبوسات میں نظر آتے ہیں۔ میں نے تو " لپری کالیا" جیسے واہیات تہوار کا خاتمہ کیا تھا تاکہ لوگ رشتوں کی قدر پہچانیں، لوگ اپنی " بھوک "کی خاطر کسی دوسرے کے جذبوں کا، کسی دوسرے کے احساسات کا خون نہ کریں، کسی دوسرے کی عزت کو سر بازار رسوا نہ کریں، لوگ محض "چِل" کرنے کی خاطر کسی کی زندگی سے نہ کھیلیں، لیکن افسوس آج سب کچھ ہو رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے احساسات کو بھی پاوں تلے روندتے ہیں، ان کی عزتوں کو بھی نیلام کرتے ہیں، ان کے پاکیزہ جذبوں کی بھی توہین کرتے ہیں، بچے اور بچیاں سکولوں اور کالجوں سے بنک (Bunk) کر کے اپنے عشاق کے ساتھ دل پشوری بھی کرتے ہیں۔ اور خصوصاً اس دن یہ سب کام کرتے ہیں۔ مجھے یہ سب دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔

محبت بہت نفیس اور خوبصورت جذبے اور احساس کا نام ہے یہ پاوں تلے روندنے کے لئے نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنی "بھوک" کی تسکین کے لئے ہوتاہے۔ ہم مغرب والوں نے اس جذبے کی قدر و قیمت کو نہیں پہچانا، اسی لئے ہمارے مغربی معاشرے میں انسانیت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے، خاندانی نظام وقت کی گرد میں کہیں گم ہو چکا ہے، رشتوں کی قدر و قیمت ختم ہو چکی ہے۔ لیکن مشرق کے لوگوں کو اپنی روایات کے ساتھ ہر وقت نتھی رہنا چاہیے، مشرق کے پاس روایات کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں ہے۔ اس جذبے کی قدر کریں، لوگوں کے احساسات کی قدر کریں، کسی کے جذبوں کے ساتھ مت کھیلیں۔