بات شروع کرنے سے پہلے میں اس بات کی وضاحت دیناضروری سمجھتا ہوں کہ میرے گزشتہ کالم زندگی کی حقیقتں (کسی پیارے کا چلے جانا) اور آج کے کالم میں کسی خاص طرح کی مماثلت نہیں ہے۔ یہ دو مختلف موضوعات ہیں۔ کسی پیارے کا دنیا سے چلا جانا یہ بھی بچھڑنے کی ہی ایک قسم ہے لیکن آج کی تحریر میں میں عارضی طور پر کسی سے دور چلے جانا یا وقتی طورپر کسی جگہ کو چھوڑ دینا یا اس سے جڑے احساسات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی کوشش کروں گا۔
بچھڑنا کسی بھی حال میں اچھا نہیں لگتا، چاہے وہ کسی اچھے مقصد کے لئے ہویا کسی اچھے مقصد کے لئے نہ ہو۔ انسان اپنے آرام سے اپنے کمفرٹ زون سے باہر آنے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہوتا، اسکو اپنی جگہ چھوڑتے ہوئے کچھ تکلیف ضرور سہنا پڑتی ہے اور یہ تکلیف کسی رخم کے درد جیسی نہیں ہوتی بلکہ یہ تکلیف احساس کی تکلیف ہوتی ہے جس میں نہ تو خون نکلتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے چوٹ کے نشان پڑتے ہیں، لیکن اسکا گھاو بہت گہرا ہوتا ہے۔ اس کی تکلیف بہت گہرائی تک محسوس ہوتی ہے۔ بچھڑنے کا احساس انسان کے اندر وقتی طور پر یا مستقل بنیادوں پر ادھورا پن پید اکر دیتاہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ اس بچھڑنے کے عمل میں صرف انسانوں سے بچھڑنا ہی شامل نہیں ہے بلکہ اس احساس کا تعلق ہمارے اردگرد کی کسی بھی چیز کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اپنی چگہ چھوڑتے ہوئے بھی بچھڑنے کا احساس محسوس ہوتا ہے، اپنی وہ جگہ جس کے ساتھ بچپن یا لڑکپن کی یادیں جڑی ہوئی ہوتی ہیں، اپنی وہ جگہ جہاں زندگی کے قیمتی دن بیتے ہوتے ہیں، اپنی وہ جگہ جہاں ساری زندگی نوکری کرکے ریٹائر ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اپنے پالتو جانوروں کی جدائی بھی ایسے احساس کو جنم دیتی ہے وہ پالتو جانور جس کو دیکھنے کی عادت سی ہو جاتی ہے، جس کی آواز کچھ دیر تک سماعتوں سے نہ ٹکرا ئےتو کچھ کمی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح اپنی کوئی چیز خراب یا دور ہو جائے تو بھی یہ احساس ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے، اپنی وہ پیاری سائیکل یا موٹر سائیکل جس پر زندگی کا طویل سفر کاٹا ہوتاہے اس کے دور جانے پر بھی اس کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے اور ان سب چیزوں سے بڑھ کر اپنے پیارے رشتے جو زندگی میں خوبصورت رنگ بھر دیتے ہیں، وہ رشتے جو ہمیں زندگی اور خوشی کے حقیقی معنی سے روشنا س کراتے ہیں، وہ رشتے جن پرحق جتانے کو جی چاہتا ہے، وہ رشتے جن کی محبت کی عادت ہو چکی ہوتی ہے ایسے رشتوں سے تھوری دیر کے لئے بھی دور جانے سے یہ احساس ہمارے قدموں سے لپٹ جاتا ہے۔ زندگی میں ہمارا دائرہ اختیار بہت زیادہ محدور ہوتاہے۔ اس لئے ہمیں ایسے احساسات کو، ایسے جذبوں کو بھی گلے لگانا پڑتا ہے جن کو گلے لگانے سے سانس رکنے لگتا ہے۔ لیکن اسی کا نام زندگی ہے یہ کبھی بھی ہماری مرضی سے ہمارے راستے پرنہیں چلتی، اس کی اپنی رفتار ہوتی ہے، اس کے اپنے متعین راستے ہوتے ہیں جن پر بارحال ہمیں بھی چلنا پڑتا ہے اور انہی راستوں کو ہم زندگی کی حقیقتیں کہ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے میں نے زندگی کی کچھ حقیقتوں کا ذکر کر کے ان کا حل تجویز کرنے کی کوشش کی تھی لیکن آج کی تحریر میں درج زندگی کی اس حقیقت کا حل میں ابھی تک نہیں ڈھونڈ سکا۔ لیکن میں آجکل اس احساس سے گزر رہاہوں اور میں محسوس کر سکتا ہوں کہ ایسی صورت حال میں انسان کے کیا جذبات ہوتے ہیں، انسان کیسا محسوس کرتا ہے۔ اسی لئے میر ی تمام پڑھنے والوں سے گزارش ہے اگر آپ کے پاس کوئی ایسا حل ہے جس سے اس احساس کی شدت کو کم یا مکمل ختم کیا جاسکتا ہے تو مجھ سے ضرور شئیر کیجئے گا۔ تاکہ میرے ساتھ ساتھ میری طرح کے اور بھی کمزور لوگوں کا کچھ بھلا ہو سکے۔