یہ دوپہر کے کھانے کے وقت دفتر کی ایک کینٹین کا منظر ہے۔ میز کے دونوں طرف چار چار کرسیاں رکھی ہوئیں ہیں اور اس لحاظ سے ایک وقت میں آٹھ لوگ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ یہ بھی آٹھ دفتر کے ساتھیوں کی کہانی ہے۔ سہیل نے سب سے پہلے آکر کھانا شروع کیا کچھ دیر بعد رشید کھانا لا کر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ سہیل بولا "ابھی تک فرقان کیوں نہیں آیا؟"۔ رشید بولا " اسکاباس بیٹھا ہوا ہو گا اور باس کی موجودگی میں کرسی چھوڑنا اس بزدل کے لئے آسان کام نہیں اور تجھے تو پتہ ہے وہ اپنے باس سے کتنا ڈرتا ہے، اتنا اس کو اللہ کا خوف ہو تو اس کی آخرت سنور جائے"۔ سہیل نے کہا "ہاں تو ٹھیک کہ رہا ہے میں نے بھی یہی محسوس کیا ہے بہت ڈرپوک ہے"۔ اتنی دیر میں فرقان بھی کھانا لے کر آگیا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا آتے ہی بولا " ارمان بڑا ہی خبیث آدمی ہے" سہیل اور رشید دونوں نے حیرانی سے پوچھا "کیوں بھائی ایساکیا ہوا ہے؟" فرقان بولا " ایک نمبر کا کام چور ہے اسکا سارا کام مجھے کرنا پڑتا ہے خود ہر وقت سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے میں لگا رہتا ہے اور باس بھی اسکو کچھ نہیں کہتا الٹا اسکا سارا کام بھی مجھے دے دیتا ہے"۔ سہیل اور رشید نے فرقان کی بات کی تائید کی، سہیل بولا "ارمان نے ابھی بھی سٹیٹس اپ لوڈ کیا ہے لنچ ٹائم، نو مور ورک"۔ رشید نے زور کا قہقہ لگایا اور سب کھانے میں مصروف ہو گئے ابھی خاموشی کے چند لمحے ہی گزرے تھے کہ ارمان بھی کھانا لے کر آگیا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد ارمان بولا " یہ الو کے پٹھے !ہمارے ملک کے سیاست دانوں کو کب عقل آئے گی؟ ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور اس کے پیچھے فہد جیسے بے وقوف لوگ ہیں جو ان جاہلوں کو ووٹ دیتے ہیں"۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے ارمان سب سیاستدانوں کے نام لے لے کر ان کوانتہائی واہیات انداز میں برا بھلا کہنے لگا اور ساتھ ہی اپنے دوست فہد جو کہ ایک سیاست دان کو بہت زیادہ پسند کرتا ہے اسکی بھی مٹی پلید کرنے لگا۔ ابھی بات چل ہی رہی تھی کہ فہد بھی کھانا لے کر آگیا اور وہ بھی گفتگو میں شامل ہو گیا اب کھانے کی میز پرائم ٹائم ٹاک شو کا منظر پیش کر رہی تھی۔ فہد اپنے پسندیدہ سیاست دان کی اچھائی اور قابلیت کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے سیاست دانوں کو برا بھلا کہتا رہا اور جواب میں ارمان اپنے پسندیدہ سیاست دان کا دفاع کرنے کے لئے دلیلوں بجائے دوسروں کو برا کہتا رہا۔ ابھی یہ گرما گرما گفتگو جاری تھی کہ فواد کھانا لے کر آگیا اور آتے ہی کہنے لگا " میٹنگ کی وجہ سے آج بہت دیر ہو گئی، سہیل! یہ تیرا باس بڑا ہی کھروس آدمی ہے میٹنگ میں سب کے سامنے میری غلطی پکڑ کر اسی پر عزت افزائی کرتا رہا"۔ اس کے بعد فواد سہیل کے باس سے لے کر سی ایف او اور تمام لوگ جو میٹنگ میں موجود تھے ان سب کی برائیاں کرتا رہا اور اس نیک کام میں سب اپنا اپنا حصہ برابر ڈالتے رہے۔ اسی گفتگو کے دوران شرجیل اور سبطین بھی کھانا لے کر آگئے، شرجیل کو چونکہ کرکٹ کا بہت شوق ہے اور پاکستان تازہ تازہ دوسری ٹیم سے انتہائی عبرت ناک شکست سے دوچار ہوا تھا اس لئے آتے ہی کہنے لگا" ساری کی ساری کرکٹ ٹیم کو پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے ساری رات جاگ کر میچ دیکھتا رہا اور اسکا تحفہ اتنی بری ہار سے دیا"۔ اس کے بعد ایک ایک کھلاڑی کا نام لے کر اس کی میچ میں خامیاں گنوانے لگا اس کے بعد کوچ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتطامیہ کی باری آئی۔ سبطین کو چھوڑ کر باقی سب بھی اپنی اپنی رائے دیتے رہے اور سب کی خامیاں نمایاں کرتے رہے۔ سبطین ان سب میں سے مختلف تھا وہ عموماً اس طرح کی گفتگو سے پرہیز کیاکرتا تھا، جس گفتگو میں پالیسی کی بجائے لوگ زیر بحث ہوں۔ یادرہے کہ اس ساری گفتگو اور سلسلے کوابھی بمشکل آدھا گھنٹہ ہی ہوا ہے۔ سہیل چونکہ سب سے پہلے آیا تھا اس لئے وہ کھانا کھا کر پہلے ہی چلا گیا اس کے جاتے ہی فواد کہنے لگا "یار یہ سہیل اپنے باس کی طرف بڑا بد تمیز آدمی ہے اتنی بھی تمیز نہیں کہ محفل میں سے ایسے اٹھ کر جانا بدتہذیبی ہوتی ہے جانے ان جاہلوں کو کب عقل آئے گی"۔ اتنے میں سبطین نے بھی اجازت لی اور واپس اپنی چلا گیا، رشید کہنے لگا "سبطین انتہائی انا پرست اور مغرورانسان ہے، خاموشی سے آتا ہے اور خاموشی سے اٹھ کر چلا جاتا ہے ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ ہم سے بات کر لے یا ہماری گفتگو میں حصہ ہی ڈال لے"۔ سب نے اس کی تائید کی اور سبطین کی برائی میں اس سے متعلق ایک ایک واقعہ مرچ مصالحہ لگا کر بتایا۔ یار رہے کہ دن کے کھانے کا وقت صرف آدھا گھنٹہ ہے اور ابھی تک ان تمام واقعات کو چالیس منٹ ہو چکے ہیں، اتنے میں سب نے کھانا ختم کیا اور اپنی اپنی کرسی چلے گئے۔ (جاری ہے)