1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. چھینکوں کی اقسام

چھینکوں کی اقسام

شفیق الرحمن کا شمار اردو ادب کے چوٹی کے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک انتہائی دلچسپ مضمون میں لکھا ہے کہ ہمارے چہرے کا ایک ایک حصہ انتہائی خوبصورت ہوتا ہے۔ انسان کی دلچسپی چہرے کے کسی بھی حصہ میں ہو سکتی ہے چاہے وہ آنکھیں ہوں، ہونٹ ہوں، گال یا گالوں پر پڑنے والے ڈمپل ہوں، دانت ہوں، ناک ہو یا کچھ بھی۔ اسی مناسبت سے انسان کی نظر جس چہرے پر بھی پڑتی ہے سب سے پہلے دھیان اسی حصہ پر جاتاہے۔ شفیق الرحمن نے اس مضمون میں ناک اور ہونٹ کے درمیان مونچھوں کی جگہ پر موجود چھوٹے سے گڑھے کا ذکر کیا ہے۔ میں نے گڑھے کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کیونکہ مجھے اس کے لئے کچھ خاص مناسب لفظ ملانہیں، اورشفیق الرحمن کی یہ تحریر پڑھے ہوئے بھی بہت وقت بیت چکا ہے اس لئے انہوں نے جو لفظ استعما ل کیا وہ بھی حافظے کے کسی کونے میں گم ہوچکا ہے۔ انہوں نے اس مضمون میں غالباً اپنے کسی دوست کا ذکر کیا تھا جس کو ناک اور ہونٹوں کے درمیاں مونچھوں کی جگہ موجود گڑھوں میں بہت دلچسپی تھی اور ان کے دوست کی وجہ سے شفیق الرحمن نے بھی اس پر غور کرنا شروع کیا۔ وہ جس شخص سے بھی ملتے ان کی نظر سب سے پہلے اسی جگہ پڑتی۔ انہوں نے اس کام کو بہترین مشعلہ قرار دیا۔ ہر انسان بہت دلچسپ اور خوبصورت ہوتا ہے۔ انسان کی تخلیق بہت خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔ اسی مضمون کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں کچھ دنوں سے انسان آنے والی چھینکوں پر غورکر رہا ہوں۔ ہر انسان کے چھینکنے کا انداز مختلف ہوتاہے، بعض اوقات آواز میں گونج ہوتی ہے بعض اوقات چہرے کے تاثرات بہت پر کشش ہوتے ہیں۔ میں چھینکوں کی اسی طرح کی کچھ اقسام کا تذکرہ کر رہا ہوں۔

کچھ لوگوں کے چھینکنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دشمن حملہ آور ہو گیا ہے۔ یا کوئی بہت بھاری چیز سو میٹر کی بلندی سے پاس آکر گری ہے۔ ان لوگوں کی چھینک کی آواز بہت اونچی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی عام زندگی میں نہ تو آواز اونچی ہوتی ہے اور نہ ہی عموماً یہ لوگ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں۔ لیکن چھینک کے معاملے میں ان کو خاص عطا ہوتی ہے۔ کبھی آپ کسی گہری سوچ میں بیٹھے ہوں تو اچانک ایسے لوگوں کی چھینک آپ کا "تراہ" نکال دیتی ہے۔ بعض اوقات تو چھینک کی لرز سے ہاتھ میں موجود موبائل بھی گر جاتاہے۔

ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان بھائی پر بنیادی چھ حقوق ہوتے ہیں جن میں سے ایک حق مسلمان بھائی کی چھینک کا جواب دینا بھی ہے۔ میرے ایک دوست ہیں وہ اکثر کھانسی کر کے الحمد للہ پڑھا کرتے تھے میں اسکا جواب تو دے دیا کرتا تھا لیکن سوچتاکہ کھانسی پر تو عموماً الحمد للہ نہیں کہا جاتا، پھر یہ کیوں ایسا کرتے ہیں؟۔ یہ راز مجھ پر بعد میں اشکار ہوا کہ وہ کھانسی کی طرح چھینکتے ہیں۔ لیکن آواز اور چہرے کے تاثرات ایسے ہوتے ہیں کہ گویا کھانسی کر رہے ہوں۔ میری ایسے تمام حضرات سے گزارش ہے کہ اپنی چھینک کی وضاحت ضرور دے دیا کریں۔ نہیں تو کم از کم چہرے کے تاثرات ایسے ہوں کہ سننے والا اگر شبہات میں مبتلا ہو بھی تو کم از کم دیکھنے والا ضرور سمجھ جائے۔

کچھ لوگوں کی چھینک خاموش چھینک کہلاتی ہے۔ انکو چھینک تو آتی ہے لیکن یہ چھینک بنا آواز کے ہوتی ہے۔ اگرایسے لوگوں کی طرف دیکھا جائے تو تب ہی ان کے چہرے کے تاثرات بتاتے ہیں کہ ان کو چھینک آئی تھی۔ اگر آپ کی نظر ان لوگوں کے چہروں پر نہ ہو تو ان کے منہ سے الحمد للہ سن کر یہی تاثر جاتا ہے کہ اللہ کے بہت نیک لوگ ہیں جو ہر وقت اللہ کی نعمتوں پر شکر کر رہے ہیں۔

کچھ چھینکیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کو سننے کے بعد آپ گیس کے پائپ تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی چھینک سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ گیس کا کوئی پائپ لیک ہو گیا ہے۔ ایسے حضرات کو اونچی آواز میں اس بات کا اشارہ دینا چاہیے کہ یہ آواز ان کی چھینک کی وجہ سے آئی تھی نہ کہ گیس کا کوئی پائپ لیک ہونے کی وجہ سے۔

کالج میں ہمارے ایک پٹھان دوست ہوا کرتے تھے۔ ہمارے پٹھان بھائی بہت ہی خوبصورت اور معصوم لوگ ہوتے ہیں۔ میرے وہ دوست جب چھینکتے تھے تو ناک کے دونوں سوراخوں کو سختی کے ساتھ بند کر لیا کرتے تھے اور منہ بھی انکا بند ہوتاتھا۔ اس صورت حال میں چھینکتے وقت ان کی حالت ایسے ہوتی تھی جیسے کارٹون فلموں میں کسی کارٹون کی آنکھیں کوئی خوبصورت منظردیکھ کر ربڑ کی طرح آگے نکل کر چندلمحوں کے لئے دو فٹ دور جا کر واپس آجاتی ہیں۔ اس طرح چھینکنے کی وہ یہ وجہ بتایا کرتے تھے کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اردگرد بیٹھے لوگ ناک اور گلے سے نکلنے والے مواد سے مالا مال ہو جائیں۔

کچھ لوگوں کو چھینکیں بھی چھپڑ پھاڑ ملتی ہیں۔ مطلب ایک، دو، تین، چار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سننے والا اسی انتظار میں ہوتا ہے کہ اب تو بس کر جا بھائی۔ ان کی چھنکیں ہمیشہ اپنے ساتھ اور بھی بہت ساری چھینکیں لے کر آتیں ہیں۔ چھینکتے ہوئے ان کے چہرے کے تاثرات بہت اچھے اور پیارے بنتے ہیں دیکھ کر بلا اختیار پیار آنے لگتا ہے۔

جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں اللہ تعالی نے انسان کو بہت خوبصورت اور مکمل انداز میں پیدا کیا ہے۔ اسکا ایک ایک عمل انتہائی خوبصورت اور دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ اپنے موبائل، انٹرنیٹاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا سے باہر نکل کر اپنے اردگرد موجود لوگوں پرتوجہ دیں۔ مجھے یقین ہے آپ کو لوگوں کی ایک ایک بات پر ان کی ایک ایک حرکت پر پیار آئے گا۔ جس دن آپ لوگوں کومحبت کی نظر سے دیکھنے لگ گئے یہی دنیا کے لوگ آپ کی زندگی میں قوس قزا کے رنگ بکھیر دیں گے۔