روم کے کافی ہاوس میں ایک معزز شخص سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کہا آپ مشرق کے لوگوں کے ساتھ تو ہمیشہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ جن کو عقل قبول نہیں کرتی، لیکن کبھی کبھی مغربی دنیا میں بھی ایسا ہو جاتا ہے لیکن ہم اسکا ذکر نہیں کرتے، کیونکہ عقل اس کو قبول نہیں کرتی۔ کہنے لگا میں ریس کورس میں اپنے آخری سو لیرے ہار کر جب باہر نکلا تو مجھے قریبی غسل خانے میں جانے کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی۔ وہاں گیا تو وہ سرکاری غسل خانہ تھا اور وہاں سو لیرے (اٹھنی) کا سکہ ڈال کر دروازہ کھولا جا سکتا تھا۔ میری ساری جیبیں خالی تھیں اور میں غسل خانے کا دروازہ کھولنے سے معذور تھا۔ سڑک کنارے میں نے پارک میں بیٹھے ایک شخص سے سو لیرے کا سکہ مانگا تو اس نے کوٹ کی جیب سے سکہ نکال کر مجھے دے دیا۔ میں جلدی سے غسل خانے کی طرف گیا اور سکہ ڈال کر دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ دروازہ کھلا اور اندر سے ایک شخص باہر آیا، اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور دروازے کے پٹ تھام کر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ایسے ہی اندر آجائیے۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اندر چلا گیا۔ غسل خانے سے فراغت کے بعد میں جلدی سے سڑک کنارے پارک میں بیٹھے شخص کے پاس واپس آیا تاکہ اسکو سکہ واپس کر سکوں لیکن وہ وہاں سے جا چکا تھا۔ میں نے عادتاً سکہ لاٹری والی مشین میں ڈال کر مشین گھمائی تو دس کا سکہ نیچے آکر گرا۔ میں نے دوبارہ دس کا سکہ ڈال کر مشین گھمائی تو اس بار سو کا سکہ نیچے آکر گرا۔ اتنی خطیر رقم لے کر میں ریس کورس کی طرف واپس بھاگا اور سب سے کمزور گھوڑے پر پورے پیسے لگا دیے۔ حیرانی کی بات وہ کمزور گھوڑا جیت گیا اور مجھے سو کے بدلے دس ہزار مل گئے۔ وہ رقم لے کر میں گھر آگیا۔ اگلے دن میں نے اخبار میں دیکھا کہ ایک ڈوبی ہوئی کمپنی کوزندہ کرنے کے لئے مارکیٹ میں پھر شئیر فلوٹ کئے گئے۔ میں نے سارےدس ہزار اس کمپنی میں لگادئیے۔ چھ مہینوں تک ان شئیز کی قیمت ویسی ہی رہی۔ لیکن چھ مہینوں کے بعد ان کی قیمت میں اضافہ ہونے لگا۔ اور اس طرح میرے شئیز کی قیمت دس لاکھ ہو گئی۔ وہاں سے میں نے باقائدہ کاروبار شروع کیا اور میں اس مقام تک پہنچ گیا جہاں آپ سب لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اتنی دولت، شہرت کے بعد بھی ہمیشہ ایک چیز کی حسرت رہی، وہ حسرت پوری نہیں ہو سکی۔ میں نے کہا۔ " مجھے معلوم ہے آپ چاہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اس آدمی کو تلاش کر لیں جس نے غسل خانہ کھولنے کے لئے سکہ دیا تھا"۔ اس نے کہا۔ " نہیں، مجھے اس آدمی کی تلاش ہے جس نے میرے لئے دروازہ کھولا تھا اور کہا تھا آپ اندر آجائیے"۔ (یہ اقتباس اشفاق احمد کی کتاب سے لیا گیا ہے)
زندگی میں بہت سارے لوگ ہمارے لئے دروازےکھولتے ہیں، کبھی یہ خوشیوں کے دروازےہوتے ہیں، کبھی دولت اور شہرت کے دروازے ہوتے ہیں، کبھی خوبصورت احساسات اور خوبصورت جذبوں کے دروازےہوتے ہیں اور کبھی کبھی یہ خوش قسمتی کے دروازے ہوتے ہیں۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں۔
"آپ کی قسمت آپ کے ہاتھوں میں نہیں، بلکہ آپ جس سے ہاتھ ملا رہے ہوتے ہیں اسکے ہاتھ میں ہوتی ہے"۔
ہمیں زندگی میں اس بات کا احساس نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی کسی کے زندگی میں آنے کی وجہ سے کسی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی وجہ سے، کسی کےساتھ چند قدم چلنے کی وجہ سےاور کبھی کسی ہمسفر کی وجہ سے ہم کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں، زندگی ہمیں پاتال سے اٹھا کر اوج ثریا تک لے جاتی ہے۔ ہماری زندگی میں ان لوگوں کی کمی نہیں ہوتی جو ہمارے لئے دروازے کا پٹ کھول کر ہمارا انتظار کرتے رہتے ہیں، ہمیں خوبصورت احساسات کی دنیا، خوبصورت لوگوں کی دنیا، خوشیوں کی دنیاکی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات تو ہم ان کھلے دروازوں سے دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں، ایک ایسی دنیا جہاں ہم تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں، ایک ایسی دنیا جہاں ہمارا سورج مکمل روشن ہو جاتا ہے، ایک ایسی دنیا جہاں سانس لینے کی خواہش عموماً حسرت بن جایا کرتی ہے اور ایک ایسی دنیا جہاں ہم کامیابی کے حقیقی معانی سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ جب بھی آپ ایسی دنیا میں پہنچ جائیں تو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں مڑکے ان لوگوں کو ضرور دیکھئے گا جنہوں نے آپ کے لئے دروازے کاپٹ کھولے رکھا تھا۔ ان لوگوں کو کبھی بھی فراموش مت کیجئے گا۔ اسی طرح بعض اوقات ہم ان کھلے دروازوں اور ان لوگوں کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے جو ہمارے لئے دروازے کا پٹ کھولے ہمارا انتظار کرتے رہتےہیں، ہم ان لوگوں کو اپنی زندگی میں اہمیت ہی نہیں دیتے، یا ان لوگوں کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے اپنے نصیبوں پر ماتم کرتے رہتے ہیں۔ اس صورت حال میں اپنے ادرگرد کے کھلے دروازوں کی طرف دیکھیں اور نصیبوں پر ماتم کی بجائے دورازے کے اس پار کی دنیا میں قدم رکھیں۔