ہمارے ایک پروفیسر ہوا کرتے تھے۔ ان کوویسے تو اپنے مضمون پر بہت اچھی دسترس تھی اور بہت اچھا پڑھاتے تھے لیکن کبھی کبھی اگروہ موڈ میں ہوتے یا کسی بات پر بہت زیادہ دکھی ہوتے، تو زندگی کی بے ثباتی، دنیا میں رائج قانون اور انسانی سرشت پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے تھے۔ ان موضوعات پر ان کی گفتگو اتنی دلچسپ ہوا کرتی تھی کہ چالیس منٹ کی کلاس ختم ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ اسی لئے ہماری اکثر یہی کوشش ہوتی تھی کہ سر اپنے مضمون کو پڑھانے کی بجائے انہی موضوعات پر بات کیا کریں۔ اسی غرض سے اکثر ہم میں سے کوئی سٹوڈنٹ سر کے کلاس میں آتے ہی سر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایسے ہی کسی موضوع پر ہلکی سی بات کر دیتاتھا۔ اور اس کے جواب میں کبھی کبھی تو سر مختصر جواب دے کر فوراً اپنے موضوع پر واپس آجاتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی وہ گفتگو کی رو میں اتنا آگے نکل جاتے کہ واپسی کے لئے وقت ختم ہو جاتاتھا۔ ایک دن اسی طرح سر کسی موضوع پر بات کر تے ہوئے کہنے لگے، دنیا کے ہر انسان میں دو خواہشیں مشترک ہوتی ہیں۔ ایک مال ودولت کے حصول اور زیادتی کی خواہش اور دوسری خوبصورت نظر آنے کی خواہش۔ ان دو خواہشوں کے بارے میں میں نے بہت سوچا، بہت غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان جیسا بھی ہو جس بھی راستے کا مسافر ہو، شعور کی جتنی بھی منزلیں طے کر چکا ہو، دولت اور خوبصورت نظر آنے کی خواہش اس کے اندر زندگی کے ہر مرحلے میں کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی مقدار میں ضرورموجود رہتی ہے، چاہے وہ کوئی نوجوان ہو یا جوان، منجلا ہو یا بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہو، دنیادار ہو یا کوئی مذہبی انسان، امیر ہو یا غریب، خوبصورت ہو یا معمولی خدوخال کا مالک، کام کرنے والا آدمی ہو یاکوئی گھریلو عورت۔ دولت کی خواہش انسان کی سرشت میں موجود ہے۔ اسی سرشت کی تسکین انسانوں کوانسانیت کے مقام سے اٹھا کر ذلت کے پاتال تک لے جاتی ہے۔ دولت اور پھر زیادہ دولت اور پھر نہ ختم ہونے والی دولت کی خواہش کے راستے پر ہم لوگوں کے حقوق کو، ان کے جذبوں کو، ان کے احساسات کو پاوں تلے روند تے رہتے ہیں۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے خونی رشتوں کے تقدس کو پامال کرتےرہتے ہیں۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے ایمان پر برائے فروخت کی مختلف تختیاں لگا تے رہتے ہیں۔ اسی طرح دوسری بنیادی خوبصورت نظر آنےکی خواہش کو پورا کرنے کے لئے آج کا انسان کس کس طرح کے راستوں پر چل پڑا ہے۔ پلاسٹک سرجری سے جو کام شروع ہوا تھا وہ آج کتنا دور چلا گیا ہے۔ اسی خواہش کولگام ڈالنے کی بجائے ہم وقت کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ خوبصورت چہرے والے مزید خوبصورتی کے خبط میں مبتلا ہیں اور معمولی خدوخال رکھنے والے تواندھوں کی طرح اس سفر پر بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ خوبصورت نظر آنے کے اس جتن کا مقصد لوگوں کی توجہ کا حصول اور اپنے لئے لوگوں کے منہ سے تعریفی کلمات سننا ہوتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے "شہاب نامہ کےپہلے حصہ "اقبال جرم " میں لکھا ہے کہ"میں نے اپنے خلاف تنقید یا الزام تراشی کو برادشت کرنا سیکھا ہے اور اسکے جواب میں تضحیک یا تردید کرنے سے گریز کیا ہے۔ البتہ بجا یا بے جا تعریف سن کر دل خوش ہو جایا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کمزروی پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب بندہ کے لئے مدح و ذم دونوں یکساں ہیں۔ میں کبھی مایوس یا بور نہیں ہوا"۔ دولت کے حصول اور اسکے بعد اسکی زیادتی کی خواہش کے ساتھ ساتھ خوبصورت نظر آنے کی خواہش یہ انسانی فطرت میں موجود ہیں۔ انسانیت کی معراج اور انسانیت کی حدود میں رہنے کے لئے اپنی ذات کے آگےبہت ساری رکاوٹیں کھڑی کرنا پڑتی ہیں۔ دولت کا حصول یا اس میں زیادتی کی خواہش اور اس کی کوشش اگر انسانیت کی حدود میں رہ کر کی جائیں تو اسکا شمار قطعاً برائی میں نہیں ہوگا، مگر حدود کا خیال رکھنا ناگزیر ہے۔ لوگوں کے حقوق کا خیال، لوگوں کے جذبوں کا خیال، لوگوں کے احساسات کا خیال، حرام حلال کا خیال، غلط اور صحیح کا خیال۔ اسی طرح خوبصورت نظر آنے کے لئے پاکیزگی اور طہارت کا سہارا لینے میں بھی قطعاً کوئی برائی نہیں بلکہ اسکا تو حکم ہے مگر ہمیں اس میں بھی حدود کا تعین کر کے اس کے اندر رہنا ہو گا۔