مدینہ شریف میں ایک مرتبہ سندھ کے ایک زائر سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے اپنی عمر کے پچیس چھبیس سال غدر خواہ عاصیان اور پناہ دار گنہ گاراں کے حرم کی سیڑھیوں پر گزاردئیے تھے۔ ہم نے پوچھا سائیں "آپ بڑے خوش قسمت ہیں جو اس دربار میں حاضری دیتے ہیں ہمیں فرمائیں کہ آپ یہاں کیا کرتے ہیں؟ "مسکرا کر کہنے لگے" بابا ہم یہاں گرتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ غلطی کرتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں۔ معافی مل جاتی ہے تو پھر بھو ل چوک ہو جاتی ہے، پھر توبہ کرتے ہیں، پھر رحم ہو جاتا ہے"۔
ہم نے کہا "سائیں ! یہ عجیب کیفیت ہماری سمجھ سے باہر ہے"۔
فرمایا" بابا مومن کی شان یہی ہے کہہ گرے تو پھر اٹھ کر کھڑا ہو جائے۔ لغرش کھائے تو پھر اپنی جگہ پر قائم ہو جائے۔ مومن وہ نہیں ہوتا جو کبھی ٹھوکر نہ کھائے، غلطی نہ کرے۔ مومن وہ ہوتاہے کہ ٹھوکر کھائے لیکن پھر اپنی جگہ پر مستعد ہو جائے
ہم نے جب ان کو ایک مختلف مقام پر پایا تو ان سے دعا کی درخواست کی۔ انہوں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر کہا۔ "اللہ سائیں مجھے ایسی طاقت عطا فرما کہ جن چیزوں کو میں تبدیل نہ کر سکوں ان کے لئے اپنی جان عذاب میں نہ ڈالوں اور جن کومیں تبدیل کر سکوں ان کے لئے مجھے جرات عطا فرما۔ ساتھ ہی مجھے وہ عقل بھی عطا فرما جو ان دونوں حقیقتوں کے درمیاں فرق کر سکے تاکہ میں بیکار اور بے یارومددگاربھٹکتانہ پھروں"۔ (یہ اقتباس اشفاق احمد کی کتاب سے لیا گیا ہے)
اوپر دیے گئے اقتبا س میں دو انتہائی اہم دعاوں کیا ذکر کیا گیا ہے۔ میں ان دونوں دعاوں پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی چھوٹی سی کوشش کروں گا۔
غلطی انسان کی سرشت کا ایک جز ہے۔ غلطی کے جراثیم کا انسانی سرشت میں ہونا اس بات کی علامت ہے کہ انسان بارحال غلطی کرے گا۔ یہاں تک تو بات بہت واضح اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے۔ مشکل مرحلہ اس کے بعد شروع ہوتاہے جب انسان غلطی کر کے اس دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے، انسان غلطی کر کے اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے، انسان غلطی کر کے پچھتانے کی بجائے اس کو اپنی عادت بنا لیتا ہے۔ اللہ تعالی کو پلٹ کر آنے والے بہت عزیز ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر غلطی سے غلطی ہو جائے تو اللہ کے دربار میں حاضر ہو کر اقرار جرم کر کے پلٹ آئیں۔ اللہ کے دربار میں حاضر ہو کر اپنی غلطی کو ندامت کے انسووں سے اپنے وجودمیں سے باہر نکال دیں۔
دوسری دعا بہت زیادہ اہم ہے اور اسکا براہ راست ہماری زندگیوں سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہم ساری زندگی ایسے سراب کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں جن کو کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یا اگر ان کا وجود ہوتا بھی ہے تو انکا ہمارے ساتھ کسی طرح کا تعلق نہیں ہوتا۔ ہم ساری زندگی دوسروں کی آنکھوں سے چرائے خواب دیکھنے میں لگا دیتے ہیں ایسے خواب جو ہمارے ہوتے ہی نہیں ہیں، ایسے خواب جن کا ہماری زندگیوں سے کسی طرح کا تعلق ہی نہیں ہوتا۔ ہم ساری زندگی خواہشات کو حسرت بنتے دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم ساری زندگی لوگوں کے ادھے پورے خوابوں کو اپنی انکھوں میں سجانے کی کوشش میں گزار دیتے ہیں اور بالاخرا اس ساری سعی میں ہم اپنے خوابوں کو، اپنی خواہشات کو، اپنے سکون کو بہت بری طرح نظر انداز کر تے رہتے ہیں۔ کسی کی تھالی میں جھانکنے سے کبھی بھی اپنی تھالی میں رکھی نعمت کا نہ تو احساس ہوتاہے اور نہ ہی اس کی قدر آتی ہے۔ ہمیشہ اللہ سے اس بات کی دعا کریں کہ اللہ آپ کو ایسی چیزو ں میں کبھی نہ الجھائے جن کو آپ بدل نہیں سکتے، اللہ آپ کو کبھی بھی ان خوابوں کی طرح مت جانے دے جو خواب ہمارے نہیں ہوتے اور اسی طرح اللہ تعالی ان خوابوں کو پورا کرنے کی ہمت دے ان چیزوں کو بدلنے کی ہمت دے جو ہمارے دائرہ اختیارمیں آتی ہیں۔ اگر آج کے بے چین انسان کے مسائل کا تجزیہ کریں تو یہ بات بہت حد تک واضع ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہم نے اپنے خوابوں کو دیکھنا چھوڑ دیا ہے، ہم نے اپنی تھالی میں پڑی نعمت کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ اور دوسروں کے خواب دیکھنے والا، دوسروں کی تھالی میں جھانکنے والا کبھی سکون جیسی نعمت سے اشنا نہیں ہوسکتا۔ اللہ سے یہ دعا ہمیشہ کرتے رہا کریں کہ ان دو بنیادی چیزوں کے فرق کو سمجھے کی توفیق دے، ان دوبنیادی چیزوں کی حقیقت کو سمجھنے کا شعود عطا فرمائے۔