1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. گمنام

گمنام

اسکا نام، کیا تھا اسکا نام؟ شائد ایسے لوگوں کا کوئی نام نہیں ہوا کرتا، دیکھنے والے لوگ، ملنے والے لوگ اسکو مختلف ناموں سے پکارتے تھے۔ دشنام طرازی اسکا مقدر بن چکی تھی۔ وہ خاموشی سے سر جھکا کر سب کچھ سن لیتاتھا۔ اسکے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا، وہ کسی کو جواب نہیں دے سکتاتھا، کسی کو کچھ بھی تونہیں بول سکتا تھا، کسی سے جھگڑا نہیں کر سکتا تھا۔ اسکا دامن ماضی کی غلطیوں پر پچھتاوے سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ماضی جو کسی بھی لمحے اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا تھا، وہ ماضی جس کی گونج اسکی سماعتوں سے ٹکرا کر بازگشت بن جاتی تھی، وہ ماضی جس کا بھیانک چہرہ اسکے خوبصورت چہرے پر خوف کی چادراوڑھے رکھتاتھا، وہ ماضی جس میں وہ سر تا پا ڈوبا ہوا تھا، وہ ماضی جو ہر وقت اسکی آنکھوں سے امڈنے کو تیار رہتاتھا، وہ ماضی جو ہجوم میں بھی اسکو تنہا کر جاتا تھا، وہ ماضی جو اسکے حافظے میں لکیر کی شکل اختیار کر گیا تھا، وہ ماضی جو آسیب کی طرح اسکے وجود کا حصہ بن گیا تھا۔ وہ ماضی کی یادوں کا اتنا اسیر بن چکا تھا کہ وہ اس دنیا سے باہر آنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اسکے لئے دنیا کی حقیقت سراب میں ڈھل چکی تھی اور ماضی کی اذیت طشت ازبام ہو چکی تھی۔ ایک وقت تھا جب اسکا سورج روز روشن کی طرح عیاں سب کی نظروں کا مرکز ہوا کرتا تھا، اسی بات کا غرور، اسی بات کی لذت نے اسکو اس قدر اندھا کر دیا تھا کہ اسکو زمین پر چلتے لوگ بھی دکھائی نہیں دیتے تھے، اسی غرور نے اسکو اس حد تک بہرا کر دیا تھا کہ اسکو لوگوں کی آہیں اور سسکیاں بھی نہیں سنائی دیتیں تھیں، لوگوں کی وہ آہیں اوروہ سسکیاں جن کی رفتار روشنی کی تین لاکھ کلومیٹرفی سیکنڈ کی رفتار سے بھی زیادہ ہوتی ہے، وہ آہیں اوروہ سسکیاں جن کو عرش کا راستہ زبانی یاد ہوتا ہے، انکو کسی طرح کے گوگل میپ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہ تو ناک کی سیدھ میں فوراً عرش تک پہنچ جاتی ہیں، وہ آہیں اور وہ سسکیاں جو بھونچال کی شکل میں آکر سب کچھ تہس نہس کر دیتی ہیں۔ غرور کے اس نشہ نے اسے ہر طرح کے احساسات سے دور کر دیا تھا، اسی لذت نے اسی ہر طرح کے زیرو بم سے مبرا کے دیا تھا۔ وہ سب کچھ بھول گیا تھا، وہ بھول گیا تھا کہ جتنی اونچائی سے گرا جائے گھاو اتنے ہی گہرے ہوتے ہیں۔ اسی بھول میں اسنے بہت سارے دل دکھائے تھے اسی بھول میں اسنے ایسے لوگوں کی آنکھیں اشک الود کی تھیں جن کے آنسو باہر نہیں آتے بلکہ زہر قاتل بن کر وجود میں اترتے رہتے ہیں۔ پھر ناجانے کس کی آہ نے اسکو اتنی بلندی سے نیچے پٹخا کہ اسکی روح تک زخمی ہو گئی۔ یہ قانوں قدرت ہے جس کو کسی نعمت کی قدر نہیں ہوتی وہ نعمت اس سے بہت جلدی چھین لی جاتی ہے۔ وہ بھی محبت کے قابل نہیں تھا، وہ خوبصورت جذبوں کے قابل نہیں تھا۔ اسی لئے آج اسکی خاموشی عبرت کی زندہ تصویر بنے چیخ چیخ کر ماتم کر تی رہتی ہے۔ آج لوگ اسکی عزت نفس کو ایسے روندتے ہیں جیسے خزاں میں پیلے سوکھے پتے پاوں تلے روندے جاتے ہیں، لوگ اسکو ایسے دھتکارتے ہیں جیسے کشکول تھامے بھکاری کو دھتکارا جاتاہے۔ دھتکارنے سے دھتکارے جانے تک کے سفر نے اس کو اس مرحلے تک پہنچا دیا تھا کہ اب کوئی خوشی اس کو خوشی نہیں لگتی تھی۔ اس کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے کرب اور تکلیف کو کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ آج بھی وہ دکھوں اور تکلیفوں کی گٹھری زندگی کے ناتواں کندھوں پر لادے بوجھل قدموں کے ساتھ انجانی منزل کی طرف رواں دواں تھاکہ ایک گاڑی نے اس کو کسی اور منزل پر پہنچا دیا، ایک ایسی منزل کی طرف جو آخری منزل ہوتی ہے جسکے بعد تمام سفر، تمام مسافتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ وہ سڑک پر اس حالت میں پڑا تھا کہ کوئی اسکی طرف دیکھنے والا نہیں تھا۔ کوئی آنکھ اس کے غم میں نم نہیں تھی۔ دکھ دینے سے دکھ سہنے کے اذیت ناک سفر کے بعد بالاخر وہ رہا ہو گیا تھا۔ لاکھوں گمنام نعشوں کی طرح وہ بھی مردہ خانے میں گمنا م پڑا تھا۔