1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. جب ہم بھول جاتے ہیں

جب ہم بھول جاتے ہیں

سل ویٹوری رینا 1930 میں اٹلی کے شہر کورلیونی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ جنگ عظیم دوم میں اسکے خاندان کو ایک امریکی بم ملا، وہ بم شکاریوں کو فروخت کرنے کے دوران پھٹ گیا جس کے نتیجے میں اس کا باپ ہلاک ہو گیا۔ باپ کی موت کے بعد توتورینا خاندان کا سرپرست بن گیا، اس نے انیس سال کی عمر میں مافیا کے کہنے پر پہلا قتل کیا جس کی پاداش میں اسکو چھ سال قید کاٹنا پڑی، لیکن اس قتل کے بعد وہ مافیا کا باقائدہ حصہ بن گیا۔ مافیا کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد توتورینا مافیا کا سربراہ بن گیا جس کے بعد وہ گنا ہ کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور بالاخر اسکو موت نے اس دلدل سے آزاد کروایا۔ توتورینا کی سربراہی کے دوران سیزلین مافیا ڈر، خوف اور وہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس کے دامن پر ڈیڑھ سو لوگوں کے قتل کے خون کے دھبے ہیں۔ اسکی سفاکی کی وجہ سے اسکو "The beast" دی بیسٹ کہا جاتا تھا۔ اس کی سفاکی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس نے اپنے خلاف گواہی دینے والے آدمی سے انتقام لینے کے لئے اس کے چودہ سالہ بچے کو اغواکے بعد قتل کروایا۔ برائی کی کوکھ سے عموماً برائی ہی جنم لیتی ہے اس لئے اس کے دو بیٹوں نے بھی باپ کے راستے کو اختیار کیا، اسکا ایک بیٹا چار لوگوں کے قتل کے جرم میں پابند سلاسل رہا اور دوسرے کو مختلف جرائم کی پاداش میں چودہ سال قید کی سزا دی گئی۔ توتو رینا پچھلے کچھ سالوں سے جیل میں قید اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا تھا وہ کہا کرتا تھا یہ لوگ مجھے تین ہزار سال کی سزا دے کر بھی خوف زدہ نہیں کر سکتے۔ لیکن قدرت کے بھی کچھ قانون ہوا کرتے ہیں، ظالم کو ظلم کا بدلہ ملنے میں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالی اس دنیا میں ہی اسکو عبرت کا نشان بنا دیتاہے، اسی دنیا میں اسکا عذاب شروع ہو جاتا ہے۔ وہ کچھ عرصہ سے دیگر بیماریوں کے علاوہ کینسر کے مرض میں بھی مبتلا تھا، موت سے ایک ہفتہ قبل جیل کے ہسپتال میں اسکے دو آپریشن ہوئے جس کے بعد سے موت تک وہ کومے کی حالت میں پڑا رہا اور بالاخر سال کے اسی مہینے نومبر کی سترہ تاریخ کو زندگی کے ستاسی سال پورے کرنے سے ایک گھنٹہ پہلے وہ عبرت ناک موت سے دوچار ہوا۔

ہماری زندگی کے معاملات میں خرابی اس وقت آنا شروع ہوتی ہے، ہماری زندگی کا توازن اس وقت خراب ہوتا ہے، ہم لوگوں کے احساسات کا خون اس وقت کرتے ہیں، ہم لوگوں کے حق سلب کر کے ان پر ظلم اس وقت کرتے ہیں جب ہم اپنی زندگی کے اختتام کو، اس کے خاتمے کو، اس کے انجام کو بھول جاتے ہیں، ہماری زندگی اس چراغ کی ماند ہے جو کھلی فضا میں پڑا ہوا ہے اور کوئی بھی معمولی سا ہوا کا جھونکا کسی بھی وقت اس کو ٹھنڈا کر سکتاہے، جب ہم یہ بھول جاتے ہیں اس زندگی کے سورج نے اپنے بھرپور عروج کے بعد بارحال ڈوبنا ہے، جب ہم چار کندھوں پر جاتے جنازے کو دیکھ کر بھول جاتے ہیں کہ چند دنوں بعد ہم بھی چار کندھوں پر ہوں گے، جب ہم قبرستان کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے بھی اسی جگہ آناہے، جب ہم قدموں تلے کیڑوں کو روندتے ہو ئے بھول جاتے ہیں کہ ہم نے انہی کی خوارک بننا ہے، کہ زندگی سے بڑا بے وفا کوئی نہیں ہے، جب ہم یہ بھول جاتے ہیں اس طاقت ور اور تیز لہروں والے چیختے چلاتے پتھروں سے سر ٹکراتے دریا نے سمندر میں اتر کر خاموش ہو جانا ہے، خود کو خدا کہلانے والے آج کچھ بھی کہلانے کے قابل نہیں رہے، کہ ہزار پاوں رکھنے والا کن کھجورہ وقت آنے پر بے دست و پا کے ہاتھوں ماراجاتا ہے، جب ہم یہ بھول جاتے ہیں نمرود جیسا بادشاہ بے ضرر سے مچھر کے ہاتھوں اپنے انجام تک پہنچتا ہے، جب ہم زندگی کی بے ثباتی کو بھول جاتے ہیں، جب ہم خزاں کے موسم میں پاوں تلےروندے جانے والے پتوں کی اس فریاد کو بھو ل جاتے ہیں کہ وہ بھی کبھی درختوں کی زینت ہوا کرتے تھے، جب ہم بھو ل جاتے ہیں خوفناک طوفانوں کا سینہ تان کر مقابلہ کرنے والے دیو قامت درخت دیمک جیسے معمولی کیڑے سے ہار جاتے ہیں، جب ہم عظیم مغل سلطنت کے آخری چراغ بہادر شاہ ظفر کی "دوگز زمیں" کو بھول جاتے ہیں، جب ہم سکندر اعظم کی 33 سال کی زندگی کے اختتام پر اسکی حقیر سی خواہش "کاش کوئی مجھ سے سب کچھ لے لے اور مجھے اتنی مہلت دےدے کہ میں اپنے دیس میں مر سکوں" کو بھول جاتے ہیں، کہ دولت کے انبار رکھنے والے بھی اپنی اولادوں کی زندگیوں کے چراغوں کو ہوا کے معمولی جھونکوں سےدور نہیں رکھ سکتے، کہ ہم انسان ہیں اور جب ہم تو تورینا کی مظلوموں کے خون سے داغ دار زندگی کے بعد اسکی عبرت ناک موت کو بھول جاتے ہیں۔