1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. جومل گیا اسے یاد رکھ

جومل گیا اسے یاد رکھ

لکشمی پرساد دیوکوٹائی کو نیپالی ادب میں وہی مقام حاصل ہے جو انگریزی ادب میں شیکسپئر کو اور اردو ادب میں اشفاق احمد یا بانو قدسیہ کو حاصل ہے۔ لکشمی پرساد کا لازوال ناول" مونا مدن" ان کی پہچان بنا اور اسی ناول کی وجہ سے وہ آج بھی ادب کی دنیا میں زندہ ہیں۔ لکشمی پرساد کہا کرتے تھے کہ مونا مدن کو چھوڑ کر اگر میرے سارے کام کو اگ لگا دی جائے تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہی ناول میری پہچان کے لئے کافی ہے۔ مونا مدن کی کہانی انسانی المیوں میں سے ایک بہت بڑے المیے کی کہانی ہے۔ یہ ساری کہانی اس کے مرکزی کردار مدن کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ مدن گھریلو حالات کو ٹھیک کرنے کی غرض سے اپنا گھر اور اپنی پیاری بیوی مونا کو چھوڑ کر تبت کی طرف چل پڑتا ہے۔ لیکن وہاں جا کر اسکو کوئی خاص کامیابی نہیں حاصل ہوتی، جس کی وجہ سے وہ واپسی کا ارادہ کرتا ہے۔ اس کا ہمسفر اسکا بہت گہرا دوست ہوتا ہے جو کہ مدن کو اس وقت اکیلا چھوڑ کر چلا جاتا ہے جب مدن دوران سفر سخت بیمار پڑ جاتا ہے۔ مدن کو وہاں سے بیماری کی حالت میں ایک نچلی ذات کا آدمی اٹھاتا ہے اور اسکی مکمل تیمارداری کر کے اسکو زندگی کی طرف واپس لے آتا ہے۔ مدن کا دوست واپس آکر بتاتا ہے کہ مدن بیماری کی حالت میں مر چکا ہے۔ اسکی بیوی مونا اس صدمے کو برداشت نہیں کر پاتی اور مر جاتی ہے۔ مدن جب مکمل صحت باب ہو کر واپس آتا ہے تو اسکو معلوم ہوتا ہے کہ اس کےپاس اب کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ اسکی جھولی بالکل خالی ہو چکی ہےخوشیوں سے خالی، نعمتوں سے خالی، اطمینان سے خالی۔ لیکن ہاں ایک احساس اسکی جھولی میں ضرورجنم لیتا ہے اور وہ پچھتاوے کا احساس ہوتا ہےجس نے زندگی بھر اسکی جھولی میں ہی رہنا ہوتا ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہی فوراً امجد اسلام امجد کی بہت خوبصورت نظم ذہن میں آجاتی ہے۔ کہتے ہیں۔

کہاں آکر رکنے تھے راستے

کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ

جو نہیں ملا اسے بھو ل جا

وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں

اے دل بے خبر میری بات سن

اسے بھول جا

اسے بھول جا

اگر تھورا غور کریں تو ہمیں محسوس ہو گا کہ آج کے دور کا ہر کردار کسی نہ کسی حوالے سے مدن کے کردار کی پرچھائی ہے۔ آج کے انسان کے پاس بھی مدن کی طرح جو کچھ ہے وہ اسکو چھوڑ کر اسکے پیچھے بھاگتارہتا ہے جو اسکے پاس نہیں ہے، اپنی خوشیوں کو چھوڑ کر ناجانے کن خوشیوں کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جو اسکے پاس نہیں ہے وہ اگر آجائے تو اسکے ساتھ ساتھ خوشیاں بھی آجائیں گی اور اسی تلاش میں وہ ان خوشیوں کو بھی گم کر بیٹھتا ہے جو پہلے سے اسکی جھولی میں موجود ہوتی ہیں۔ وہ اپنے خوشیوں بھرے دامن کو مسلسل نظر انداز کرتا رہتا ہے۔ واصف علی واصف صاحب نے بہت خوب کہا ہے۔ "خوش قسمت وہ ہے جو اپنی قسمت پر خوش ہو جاتاہے"۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار امجد اسلا امجد نے بھی کیا ہے کہ جو مل گیا ہے صرف اسکو یاد رکھو جو نہیں ملا اسکو بھول جاو، جو نہیں ملا اسکا کبھی شکوہ مت کرو، جو نہیں ملا اسکے لئے اپنی آنکھوں کو کبھی اشک الود مت کرو۔ یہاں ایک بات کرنا بہت ضروری ہے تاکہ میری رائے کو آپ لوگ کسی اور طرف نہ لے جائیں وہ یہ کہ اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کوشش کرنا چھوڑ دیں، آپ اپنی خواہشات کا مسلسل گلا دباتے رہیں بلکہ اسکا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کی طرٖ ف ضرور بھاگیں جن کو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں مگراس کی قیمت اپنے اس پاس لوگوں کے جذبوں کے ذریعے مت چکائیں، اس کی قیمت آپ کے اس پاس موجود لوگوں کے آنسو ہرگز نہیں ہونے چائیے۔ اپنی خواہشات کو ضرور پورا کریں اور ان کے لئے کوشش بھی کریں لیکن اس ساری سعی میں اس بات کا دھیان ضروری رکھیں کہ جو کچھ آپ کے پاس پہلے سے موجود ہے کہیں آپ اسکی قربانی تو نہیں دے رہے۔ اگر اس سوال کا جواب نہیں ہے تو ضرور اگلے سفر پر نکل جائیں لیکن اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو اگلے سفر پر نکلنے سے پہلے یہ ضرورسوچ لیں کہ یہ میرے پاس موجود ہے اور جس کے پیچھے میں بھاگ رہا ہوں اسکا مجھے کچھ پتہ نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جب میں واپس آوں تو میری جھولی میں پچھتاوے کے تکلیف دے احساس کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ہو۔