ایک آدمی روز ایک پیکٹ سگریٹ پیتا ہے سگریٹ کے پیکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ مختلف قسم کے کینسر کا باعث ہے لیکن وہ آدمی پیتارہتا ہے کیونکہ اسکو یہ تو معلوم ہے کہ سگریٹ پینا صحت کے لئے نقصان دہ ہے لیکن اسکی سمجھ اتنی گہری نہیں ہے کہ اس سے ہونے والے نقصان کا صحیح سے اندازہ لگا سکے لیکن جیسے ہی وہ اس کے بارے میں تحقیق شروع کرتا ہے اور گہرائی سے اس کے پینے سے پیدا ہونے والے نقصانات کو تصویروں یا مختلف ہونے والی تحقیقات میں دیکھتا ہے اور ان لوگوں کی رائے کو سنتا ہے جو اس کے نقصانات سے متاثر ہوئے تھے تو اس کے سامنے ایک اور راستہ آجاتا ہے پہلے اس کے پاس کوئی آپشن موجود نہیں تھاوہ نتائج سے بے خبر مسلسل سگریٹ پی رہا تھا لیکن ا ب اس کے پا س ایک اور آپشن آگیا ہے وہ یہ کہ اس سے نقصان پیدا ہو رہا ہے لہذا اس کو چھوڑنا چاہیے۔ اب ایک طرف اس کا دل ہے جو کہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر سگریٹ سے رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہے، اور یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ زندگی جتنی لکھی ہے اس سے کم یا زیادہ نہیں ہونی جتنی زندگی لکھی ہے اس کو بھر پور طریقے سے گزارنا ہے وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف اسکا دماغ ہے جو اس کو مختلف دللائل سے قائل کر کے اس کو سگریٹ سے دور رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اب یہاں ایک بات بہت اہم ہے وہ یہ کہ زیادہ لوگوں کی زندگی اصولوں سے خالی ہوتی ہے کیونکہ وہ زندگی کو دل کی مرضی کو مطابق گزارتے ہیں اور دل ہمیشہ عارضی مزے کے پیچھے بھاگتا ہے اور وہ لوگ بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی زندگی اصولوں کی پٹری پر چلتے گزرتی ہے اس کی بنیادی وجہ دل اور دماغ کے مقابلے میں دل یا وماغ کی جیت ہوتی ہے۔ ہم یہ کبھی نہیں کہ سکتے کہ ان دونوں طرح کے لوگوں میں سے کوئی ایک بھی کم مزے میں زندگی گزارتا ہے مثال کے طور پر دل کی سننے والا آدمی یہ سوچتا ہو گا کہ اصولوں پر چلنے والا آدمی کتنا روکھا ہے یہ نہ تو جھوٹ بولتا ہے یہ کہ کسی کی غیبت کرتا ہے ایمانداری سے کام کرتا ہے ہمارے ساتھ وقت ضائع نہیں کرتا نہ ہی زندگی کے بنیادی مزو ں سے لطف اندوز ہوتا ہے حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہوتی، کیونکہ دل سے فیصلے کرنے والا آدمی اپنے خیالات کے صندوق پر کھڑا ہو کر دوسروں کو دیکھتا ہے اس لئے اس کو دوسرے اپنے حساب سے اچھے یا برے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس دما غ سے فیصلے کرنے والا آدمی اپنی زندگی میں زیادہ مطمئن رہتا ہے کیونکہ وہ عارضی مزے کے پیچھے نہیں بھاگتا اس قسم کے انسان کا مزہ اسی میں ہوتا ہے جس طرح دل سے فیصلے کرنے والے کا، لیکن دیکھنے والا صرف اپنے ذہن میں بنے ہوئے نظریے کی روشنی میں دوسرے کو دیکھتا ہے یہ سمجھے بغیر کہ وہ درست ہے یا غلط ہے۔ تواب اس کے لئے سگریٹ چھوڑنا پہلے سے زیادہ آسان ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی سمجھ اس معاملے میں گہری ہو جاتی ہے۔ ایک بات یہاں اور سمجھ آئی کہ اگر ہم کسی بھی عادت سے یا نظرے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو اس کے بارے میں یا اس کے نقصان کے بارے میں گہرائی سے سوچنا ہوگا۔ پھر ہمارے لئے اس کو چھوڑنا قدرے آسان ہو جائے گا۔ ہمارے دل سے ہمیشہ اسی کام کے حق میں آواز آتی ہے جس میں ہمیں لذت محسوس ہوتی ہے اور ہم اس کام کو نتائج کی پروا کئے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں وہ یہ کہ کسی بھی معاملے میں سجھ جتنی گہری ہوتی چلی جاتی ہے آپ اس کے نقصانات کو اتنے ہی بہتر انداز سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ گہری سمجھ کے بغیر آپ کو نقصان کا پتہ تو ہوتا ہے لیکن نقصان کو بعد کے حالات کا اندازہ یا اسکے نتائج کے بارے میں نہیں پتہ ہوتا اس لئے یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ آگر عمل اور سوچ ایک ہی سمت چلتے ہیں تو منافقت کا وجود کیسے ممکن ہے۔ اس کا جواب بہت آسان ہے منافقت آب کے عمل اور آپ کے قول میں فرق کا نام ہے۔ آپ کا عمل آپ کی سوچ کا محتاج ہوتا ہے نہ کہ آپ کے قول کا۔ یہاں ایک بنیادی بات جو ہم نے سمجھی ہے وہ یہ کہ سوچ جس راستے پر ہو گی ہمارا وجود اسی راستے کی طرف گامزن ہو گا۔ اس لئے سوچ کی منزل کا تعین زندگی کی مقصد بناتا ہے۔ اور سوچ کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ ایک نارمل انسان کو ایک دن میں ساٹھ ہزار سوچیں آتی ہیں، جن کو ہم خیال بھی کہ سکتے ہیں۔ ایک سوال یہاں اور جنم لیتا ہے کہ کیا یہ تمام خیالات جو ایک دن میں انسان کے زہن میں آتے ہیں ان پر فلٹر لگانا ممکن ہے ان کو قابو کرنا ممکن ہے، یہ یقیناً ایک مشکل سوال ہے جس کا جواب ہے جی ہاں ممکن ہے۔ اب ہرگہری بات سوچنے کا میں نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا کچھ سوچنے والاکام آپ لوگ خود بھی کر لیا کریں تاکہ دماغ زنگ آلود نہ ہو جائے۔