1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. ناک کی اہمیت

ناک کی اہمیت

پاکستان میں ہمارے جسم کے اس حصہ " ناک" کی بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، خصوصاً پنجاب میں اس کو بڑا پروٹوکول دیا جاتاہے۔ خاندان کے بڑے اسکے بارے میں بہت حساس واقع ہوئے ہیں، اس حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس کی خاطر لوگ اپنی اولاد کی خوشیوں، ان کی خواہشات، ان کے سکون کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی حساسیت اور ایساخاص پروٹوکول "ناک" کو صرف پاکستان میں ہی ملتا ہوگا یا اگر دنیا میں کہیں اور یہ پروٹوکول ملتا بھی ہو گا تو اسکی شدت یقیناً اتنی ہرگز نہیں ہو گی جتنی پاکستان میں ہے۔ میں آج کچھ ایسے معاملات کا تذکرہ کر رہا ہوں جس کی وجہ سے ہمارے بڑوں کو "ناک" کٹنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

اپنی مرضی کے پروفیشن کے انتخاب میں بچوں کو بڑی احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ میٹرک کے بعد اگر بچے اپنی مرضی کے مضمون رکھنا چاہیں تو والدین کی "ناک" خطرے میں پڑ جاتی ہے، ان کو فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ دنیا والے کیا کہیں گے کہ ڈاکٹر کے گھر یہ مراسی کہاں سے پیدا ہو گیا؟، انجینئر کے گھر یہ عاشق مزاج واہیات شاعر کہاں سے آگیا؟، 22 ویں گریڈ کے آفسر کے گھر پیدا ہونے والے بچے میں مصوری کے جراثیم کیسے آگئے؟، استاد کا بیٹا نالائق کیسے ہو گیا؟، مولوی کے گھر کا لڑکا نفسیاتی ڈاکٹر کیسے بن گیا؟۔ انہی دنیا والوں کے خدشات کے پیش نظر والدین بچوں کی خواہشات پر چھری پھیر کر بچوں کو ساری زندگی کے لئے انجانے سفر کی طرف دھکیل دیتے ہیں جہاں نہ منزل کا پتہ ہوتا ہے نہ خوشی اور اطمینان جیسے لفظ کبھی ہمسفر بنتے ہیں۔

ایک اور بہت اہم معاملہ جس میں ہمارے بڑوں کی "ناک "کٹنے کا خطرہ ہوتا ہے وہ شادی کا مسلہ ہے، اگر خاندان میں کسی کو کوئی پسند آجائے یا کوئی اپنی مرضی سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کر دے، پھر تو خاندان کے بڑوں کے رویوں میں ایک بھونچال ساآجاتا ہے۔ سب بڑے مل کر ایک ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہیں اور اس بات کا متفقہ اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے کہ خاندانی " ناک "کی حفاظت سب کا اولین فریضہ ہے اور اس کو پامال کرنے کی ہرگز کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی اس ہنگامی اجلاس میں اس مسلے کا ایک ہی حل تجویز کیا جاتا ہے وہ یہ کہ فوراً اس کی شادی کسی دوسری ایسی جگہ کر دی جائے جہاں خاندان کی " ناک " کٹنے کا خطرہ نہ ہو اور یقیناً جس جگہ اس بے چارے کی شادی کا فیصلہ کیا جاتا ہے اسکو اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا اور اگر کوئی غلطی سے بغاوت کا سوچ لے یا بغاوت کے کچھ کلمات اپنی زبان پر لے آئے تو ایسے معاملے میں ماوں کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور مائیں مختلف طرح سے emotionally blackmail کر کے اپنے بچوں کو منا ہی لیا کرتیں ہیں۔

ایک اور اہم معاملہ جس میں بڑوں کی "ناک" کٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ وہ بچوں کا فیشن ہوتا ہے بچے اگر ایسا فیشن کر لیں جو موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو لیکن وہ ہمارے خاندان کے بڑوں کو پسند نہ ہو تو اس سے بھی خاندان کے بڑوں میں تشویش کی لہر ڈور جاتی ہے کہ ان کی اولاد کسی اور طرف نہ نکل جائے اس معاملےمیں بھی بچوں کو خصوصی احتیاط کی تلقین کی جاتی ہے۔

بچوں کو اپنے دوست بنانے میں بھی احتیاط سے کام کرنا چاہیے، اگر ہمارے خاندان کے بڑوں کو ہمارے دوست نہیں پسند تو ان کے گھر داخلے پر ہمیشہ کے لئے پابندی لگ جاتی ہے۔ ادرگرد والے "ہمدرد" ہمارے بڑوں کے کان بھرنا شروع ہو جاتے ہیں کہ آپکا بیٹا جن لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہا ہے وہ لوگ

کچھ اچھے نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور ان "ہمدردوں" کی لگائی ہوئی اگ میں جلنابچوں کو پڑتا ہے کیونکہ اس سے بھی بڑوں کی ناک کٹنے کا خطرہ ہوتاہے۔

سب باتیں اپنی جگہ لیکن والدین ہمیشہ ٹھیک ہوتے ہیں وہ اگر غلط ہوں تب بھی وہ ٹھیک ہوتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے اور آج کے دور میں والدین سے زیادہ کوئی مخلص نہیں ہوتا، کوئی آپ کی خوشی میں خوش اور آپ کے دکھ میں اتنا دکھی نہیں ہو سکتا جتنا ہماری خوشی اور ہمارے دکھ کو ہمارے والدین محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اس کو بلا " چوں چڑاں" کے من و عن تسلیم کر لیں، اگر اپنی خواہشات کا گلہ دبا نے سے والدین کوخوشی ملتی ہے تو یقین کریں یہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ والدین کو محض دنیاوی عارضی خواہشات کے لئے کبھی دنیا کی نظروں میں شرمندہ مت ہونے دیں کیونکہ ان کی خوشی میں آپ کی کامیابی اور ان کا آپ کی وجہ سے دکھ آپ کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔