ایک آدمی نے پرائز بانڈ اس امید سے خریدا کہ کسی دن قرعہ اندازی میں اسکا پہلا انعام نکلے گا اور اس کے دن پھر جائیں گے۔ قرعہ اندازیاں ہوتی گئیں پہلا انعام تو دور اسکا کبھی آخری انعام بھی نہیں نکلا۔ ایک دن وہ کسی مزار پر گیا اور قبر کے پاس جا کر ہاتھ اٹھا کر بولا بابا جی دعا کریں میرا پرائز بانڈ نکل جائے۔ دعا ختم کر کے جیسے ہی باہر آیا اسکا سچ میں پرائز بانڈ نکل گیا مطلب اس کی جیب سے نکل گیا، چوری ہو گیا۔ وہ غصہ میں واپس آیا اور کہنے لگا۔ بابا جی پہلے پوری گل تے سمجھ لیا کرو۔ (پہلے پوری بات تو سمجھ لیا کریں)۔
یہ بیماری ہم میں سے اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے آپ اپنی بات شروع کرتے ہی ہیں سننے والا اپنے ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے آپ کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اندازے سے آپ کی بات کو اچک لیتا ہے اور بڑے فخریہ انداز میں داد طلب کرتا ہے۔ داد دینے والا داد تو دے دیتا ہے لیکن ذلت بھری گالیوں کے ساتھ۔ بعض اوقات تو ان لوگوں کی ذہانت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ آپ بولنے کے لئے منہ کھولتے ہی ہیں تو یہ لوگ آپ کی بات شروع ہونے سے پہلے آپ کو بتا دیتے ہیں کہ آپ یہ بات کرنے والے تھے۔ اکثر یہ بات کارپوریٹ سیکٹر میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ آپ کا باس آپ کو کوئی کام کہتا ہے اور وہ ابھی بات کر ہی رہا ہوتا ہے ورکر فوراً اس طرح کا تاثر دیتا ہے کہ اسکو بات سمجھ آگئی ہے اور بعض اوقات یہ اس لئے کرتا ہے کہ باس کو معلوم ہو اس نے کتنا ذہین آدمی کام کرنے کے لئے رکھا ہوا ہے لیکن اس کی ذہانت کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب کام کچھ ہوتا ہے اور سرزد کچھ اور ہوجاتا ہے۔ سب باتیں ایک طرف لیکن والدین اور خاص کر کے ابو سے بات کرتے ہوئے سارا دھیان ابو کی بات پر رکھیں کیونکہ اگر ابو کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام نہ ہوا تو نتیجہ کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے ابو لوگ عموماً بڑی شدت پسند ذہنیت رکھتے ہیں اور اپنی اولاد کو مارنا ور مختلف طریقوں سے پٹائی کرنا وہ اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں پتہ نہیں کس نے ہمارے والدین کو یہ بتایا ہے کہ اولاد کی جتنی پٹائی کی جائے وہ اتنا ہی قابو میں رہتے ہیں میرے ابو پہلے فلور سے اس خوبصورت لائن اور Pitch سے باٹا کا جوتا مارتے تھے کہ کبھی نشانہ خطا نہیں ہوتا تھا اور ہم بھی یہی چاہتے تھے کہ نشانہ خطا نہ ہو کیونکہ اگر نشانہ خطا ہو گیا تو ابو کو مزید غصہ آئے گا۔ میرے ایک دوست کے ابوپہلے خوب پٹائی کرتے تھے پھر جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوتا تھا تو وہ مظلوم بیٹے کو ہوٹل پر لے جا کر اچھا سا کھانا کھلا کر راضی کیا کرتے تھے اسی طرح ابووں کے پاس مارنے کی بہت ورائٹی موجود ہوتی ہے اس لئے اپنے والدین اور خاص کر ابو سے بات کرتے وقت ان کی بات کو پہلے سمجھیں اس کے بعد اس کے مطابق عمل کریں۔ انسان کی کامیابی کے بہت سے پہلووں میں سے ایک پہلو جو بیان کیا جاتا ہے وہ یہ بھی ہے کہ کامیابئ کا تعین انسان کی عادتیں کرتی ہیں اس لئے عادت بناتے وقت انتہائی احتیاط کرنی چاہیے۔ اس بات کو بھی اپنی عادت بنا لیں جو بھی آپ سے بات کر رہا ہے وہ چائے بچہ ہو، آپ کے والدین ہوں، آپ کا باس ہو، آپ کادوست ہو یا کوئی اجنبی ہو آپ پہلے اس کی بات کو مکمل سنیں، سمجھیں اور اس کے بعد ردعمل دیں اس سے اردگرد کے لوگوں کے دل میں آپ کے لئے عزت بھی بڑھے گی اور آپ شرمندگی سے بھی بچ جائیں گے اور ابو کی مار سے بھی۔