ہم نے اپنا سفر شام چار بجے ریاض سے شروع کیا۔ اکتوبر کے اختتام پر عموماً ریاض کا موسم تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ صبح اور شام کو ہوا میں خنکی محسوس ہوتی ہے۔ نومبر اور دسمبر میں سردی پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں موسم تبدیل ہوتے وقت ریت کے طوفان آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آج بھی دھوپ میں زیادہ شدت نہیں تھی گاڑی صحرا کو چیرتی ہو ئی اپنی منزل کی طرف ڈوڑتی چلی جا رہی تھی اور سورج گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتا جا رہا تھا۔ ڈوبتا سورج اور ڈوبتے انسان میں ایک قدر کتنی مشترک ہوتی ہے دونوں جاتے جاتے اندھیرا کر جاتے ہیں۔ انسان ڈوبنے کے بعد اپنے پیاروں کی زندگی میں کچھ وقت کے لئے اندھیرا کر جاتا ہے اور سورج ڈوبتے ہوئے دنیا کوکچھ دیر کے لئے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ سعودی عرب میں ہائی وے پر سفر کرتے وقت انتہائی احتیاط سے ڈرائیونگ کرنا پڑتی ہے۔ اکثر اوقات اچانک ہائی وے پر اونٹ آجاتے ہیں جس کی وجہ سے آئے روز حادثے پیش آتے رہتے ہیں۔ اس مسلے کے حل کے لئے یہاں کی حکومت نے ایک اچھا قانون بنایا ہوا ہے، اگر دن کے وقت گاڑی اونٹ کے ساتھ ٹکرا جائے تو گاڑی کا مالک اونٹ کے مالک کو حرجانہ دیتا ہے اور اگر اسی نوعیت کا حادثہ رات کے وقت ہو جائے تو اونٹ کا مالک گاڑی کے مالک کو حرجانہ دیتا ہے، اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ گاڑی کے مالک کا تو پتہ چل سکتا ہے کیونکہ گاڑی کی رجسٹریشن ہوئی ہوتی ہے لیکن اونٹ کے مالک کا کیسے پتہ چلتا ہوگا؟ سعودی عرب میں عموماً اونٹوں کی پہچان کے لئے ان کے کانوں کے پاس نمبر لگائے جاتے ہیں جس سے مالک کو ڈھونڈنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ریاض سے مدینہ منورہ کا سفر تقریباْ ساڑھے آٹھ سو کلو میڑ ہے اور چونکہ ہائی وے پر سپیڈ کیمرے بہت زیادہ تعداد میں رکھے ہوئے ہیں اس لئے ایک سو بیس کلو میڑ فی گھنٹہ کی رفتار سے ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ ریاض سے مدینہ جاتے ہوئی بڑے شہروں میں المجمعہ اور بریدہ آتے ہیں، جبکہ چھوٹے چھوٹے کئی گاوں اور شہروں کو مسافر چھو کر گزر جاتے ہیں۔ راستے میں رکتے چلتے ہم آدھی رات کو تقریباً دس گھنٹوں کا سفر طے کر کے مدینہ منورہ کی حدود میں داخل ہوئے۔ ہم جیسے ہی گاڑی سے نکل کر حرم کی طرف چلنے لگے سکون اور اطمینان کا ایک جھونکا وجود میں سرائیت کر گیا۔ وجود سر سے پاوں تک اطمینان کی نعمت سے سر شار ہو گیا، یہاں کے اطمینان اور سکون کو آپ دنیا میں کہیں اور محسوس نہیں کر سکتے میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے مدینہ منورہ کی تاریخ بیا ن کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
مدینہ منورہ میں سب سے پہلے آباد ہونے والے انسان کا نام یثرب تھاجس کی نسبت سے مدینہ منورہ کو یثرب کہا جاتا تھا۔ یثرب حضرت نوح ؑ کے بیٹے سام بن ارم بن عوض بن عبیل کی نسل سے تھا اور ایک روایت کے مطابق یثرب ارم بن لازوبن عملاق کی نسل سے تھا۔ اس شہر میں سب سے پہلے جو قوم آباد ہوئی اسکا نام عمالقہ تھا۔ عمالقہ قوم یمن میں دو ہزار سال قبل مسیح سے آباد تھی۔ ایک روایت کے مطابق عراق میں بنو حام کے مظالم کا شکار ہونے والے عمالقہ نے حجاز میں پناہ لی جب کہ یمن سے بھی چند عمالقہ خاندان قحط کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور یثرب کی سر زمین پر آباد ہوئے۔ جب عمالقہ اور قدیم صحطانی قبائل کے درمیان مکہ مکرمہ میں جنگ ہوئی اور عمالقہ نے فتح حاصل کی تو اس کے بعد عمالقہ قوم کے لوگ سر زمین حجاز آنے لگے اور عمالقہ میں بنو عبیل بن یلائل بن عوض بن عملیق یثرب میں مقیم ہوئے، عملیق کا مطلب ہے، ظلم اور زبردستی کرنے والا۔ حضرت موسیؑ نے اس قوم کے ظلم کے خلاف وسیع پیمانے پر لشکر کشی کا فیصلہ کرتے ہوئے یثرب کی طرف ایک لشکر روانہ کیا اور حکم دیا کہ وہاں کے بادشاہ سمیت تمام لوگوں کو قتل کر دیا جائے۔ یہودیوں نے بھرپور حملہ کر کے اس قوم کو شکست دی اور حکم کی تکمیل کرتے ہوئے تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔ ایک نوجوان شہزادے کو اس کی خوبصورت جوانی پر رحم کھاتے ہوئے اس شرط پر قتل نہ کیا کہ حضرت موسیؑ کے مشورے کے بعد اس کو قتل کیا جائے گا۔ جب فاتح لشکر فتح کے جشن کے ساتھ واپس شام پہنچا تو اس وقت تک حضرت موسی ؑ وفات پا چکے تھے۔ ان کی قوم نے جب دیکھا کہ فاتح لشکر نے آپؑ کی بات نہیں مانی تو ان کو اس نافرمانی کی وجہ سے ملک میں داخل نہیں ہونے دیا اس لئے یہ لشکر واپس حجازکی طرف لوٹ آیا اور عرب کے مختلف حصوں میں آباد ہو گیا۔ یہودیوں کی سر زمین حجاز میں آباد ہونے کی یہی بنیادی وجہ بیاں کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہاں قبیلہ اوس اور خزرج بھی یمن سے آکر آباد ہوئے۔ یہودی جو کہ وہاں پہلے سے آباد تھے ان پر بہت ظلم کرتے تھے۔ قبیلہ اوس اور خزرج نے یہودیوں کے ایک بدکار آدمی کو قتل کر دیا اور خطرہ کے پیش نظر اردن کے ایک ہم نسب سردارسے مدد کی درخواست کی جو کہ اس نے قبول کر لی اور ایک لشکر جرار لے کے یہودیوں کے خلاف اوس اور خزرج کی مدد کے لئے پہنچا اور یہودیوں پر حملہ کر کے چن چن کر یہودی سرداروں کو قتل کیا۔ کچھ یہودیوں نے یہاں سے ہجرت کر لی اور کچھ نے قبیلہ اوس اور خزرج سے امان طلب کرتے ہوئے ان کے دست نگر رہنا شروع کیا۔ اس طرح یہودیوں کی حکمرانی کا اختتام ہوا۔ اوس اور خزرج نے مل کر بہت ترقی کی لیکن ان میں بھی پھوٹ پڑ گئی یہ لوگ خانہ جنگی کا شکار ہوئے اور کافی عرصہ تک آپس میں لڑتے رہے جس کی وجہ سے ان کے کئی سردار مارے گئے لیکن پھر انہوں نے مل کر ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا دیا جس کے بعد خانہ جنگی ختم ہوئی۔ اس قبیلوں کا مذہب بت برستی تھا۔ اور کسی حد تک ان کے پاس دین ابراہیمی بگڑی ہوئی شکل میں موجود تھا۔ جب پیارے نبیﷺ کی بعثت ہوئی تب یثرت کفر کے اندھیروں میں بڑی طرح ڈوبا ہوا تھا۔ پیارے نبیﷺ نے 622 عیسویں میں مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت کی اور پیارے نبیﷺ کی آمد کی وجہ سے یثرب یثرب نہ رہا مدینہ منورہ بن گیا۔
مسجد نبویﷺ کے مینار ہماری آنکھوں کے سامنے تھے، ہم اس مسجد نبویﷺ کی طرف جا رہے تھے جہان سے ایک عظیم انقلاب کا آغاز ہوا۔ مسجد نبویﷺ میں موجودگی کا احساس ایسا احساس ہے جس کو بیان کرنے کے لئے کسی بھی زبان میں سرے سے لفظ ہی موجود نہیں ہیں اور قیامت تک شائد کوئی لفظ معرض وجود میں آئیں گے بھی نہیں۔ مسجد نبویﷺ کے کسی بھی حصہ میں چلے جاہیں ایک خوبصورت احساس ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح آپ کے وجود میں داخل ہو کر کپکی طاری کر دیتا ہے۔ (جاری ہے)