مسجد نبویﷺ تعمیر کے بہت سے مراحل سے گزری اس کی تعمیر کا آغاز ہجرت کے پہلے سال 18 ربیع الاول کو ہوا۔ آپﷺ نے اپنے ہاتھوں سے مسجد کی تعمیر شروع کی۔ مسجد نبوی ﷺ کی آخری اور سب سے بڑی توسیع فہد بن عبد العزیز کے دور میں ہوئی۔ مسجد نبوی ﷺ میں گنبد خضراء کو خاص اہمیت حاصل ہے اس کے نیچے حضرت محمد ﷺ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے روضہ مبارک ہیں، موجودہ گنبد خضراء عثمانی خلیفہ سلطان محمد کے دور میں 1818 میں بنا اورگبند خضراء کو سبزرنگ پہلی دفعہ 1837 میں کیا گیا جو کہ آج تک اسی حالت میں موجود ہے۔ ۔ جمعہ کی نماز اور زیارات کے بعد ہم مسجد قباء گئے، مسجد قباء تاریج اسلام کی پہلی باقائدہ مسجد ہے۔ مدینہ منورہ کے جنوب مغرب میں انصار کے متعدد قبائل آباد تھے۔ اس بستی کا نام عالیہ اور قبا مشہور تھا، قبا ایک کنویں کا نام تھا جس کی نسبت سے بستی کا نام بھی قباء مشہور ہو گیا۔ پیارے نبی ﷺ نے ہجرت کے بعد اپنے قیام کے تین دن بعد مسجد قباء کی بنیاد رکھی۔ مسجد قباء میں نفل پڑھنے کا ثواب عمرہ کے ثواب کے برابر ہے۔ مسجد قباء میں نفل پڑھنے کے بعد ہم نے میقات سے احرام باندھا اور مکہ کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ ویسے تو سال کے کسی بھی حصہ میں خانہ کعبہ جایا جا سکتا ہے لیکن حج کے بعد ایک سہولت یہ ہوتی ہے کہ یہاں رش کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے حطیم میں نفل بھی پڑھے جا سکتے ہیں مقام ابراہیمی کو بھی قریب سے دیکھا جا سکتا ہے اور حجر اسودکو بوسہ دینے کے لئے بھی زیادہ مشقت نہیں اٹھانی پڑتی۔ ایک چیز جو مجھے بہت زیادہ اچھی لگتی ہے وہاں انسان کو اپنا آپ بھول جاتا ہے۔ یوں ایک دم سے دنیا کی تمام سوچیں، تمام پریشانیاں آپ سے دور ہو جاتی ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ افراتفری کی دنیا سے نکل کر کسی اور پر سکون دنیا میں قدم رکھ لیا ہے۔ مجھے بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ حرم شریف کی حدود پر کچھ فرشتے محض اس بات کے لئے پہرہ دیتے ہوں گے کہ کوئی پریشانی کوئی دنیاوی سوچ اندر داخل ہو کر مالک اور خادم کے درمیاں دوری نہ ڈال دے۔ خادم دنیاوی پریشانی کی وجہ سے قرب الہی کی نعمت سے دور نہ ہو جائے۔ رات کے پچھلے پہر خانہ کعبہ میں بلا کا سکون اور طمانیت ہوتی ہے۔ ہر کوئی اللہ پاک سے گفتگو میں مٖصروف ہوتا ہے۔ میری دعا ہے اللہ پاک ہر مسلمان کو بار بار اپنے گھر کی زیارت بار بار نصیب فرمائے (آمین)