1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. سیدھا راستہ

سیدھا راستہ

ایک نوجوان گرمیوں کی خوبصورت دوپہر میں پیڑ کے نیچے گہری نیند سو رہا تھا جوانی کی نیند گہری اور پر سکون اس لئے ہوا کرتیں ہیں کیونکہ جوانی میں آپ کے پاس بے فکری جیسی خوبصورت نعمت ہوتی ہے۔ وہ نوجوان سویا ہوا تھا اسکا باپ وہاں آیا اور اسکو جگا کر بولا "نالائق اولاد اٹھ کر کوئی کام کر لو"۔ نوجوان آنکھیں ملتے ہوئے اٹھا اور بولا " کام کر کے کیا کروں گا؟" باپ نے کہا "کام کر کے ڈھیر ساراپیسہ کمانا"۔ نوجوان نے پھر سوال کیا "ڈھیر ساراپیسہ کما کر کیا کروں گا؟" باپ نے کہا "ڈھیر سارا پیسہ کما کر اچھا سا گھر بنانا"۔ نوجوان نے ایک بار پھر سوال کیا "اچھا سا گھر بنا کر کیا کروں گا؟" باپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہاتھا لیکن غصہ کو قابو میں رکھتے ہوئے جواب دیا " اچھے سے گھرمیں اچھا سا کمرہ ہو گا کمرے میں اے سی کی ٹھنڈی ہوا ہو گی آرام دہ بستر ہو گا اس بسترپر سکون کی نیند سونا"۔ نوجوان نے کہا "اگر مقصد سکون کی نیند ہی ہے تو اس کے لئے اتنا "سیاپا" کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو میں ابھی بھی سکون کی نیند سو رہا تھا"۔ باپ غصہ میں پہلے ہی تھا اس لئے اس نوجوان کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہوگا اس منظر کو میں آپ کی چشم تصور پر چھوڑتا ہوں آپ لوگ خود اندازہ لگا لیں۔

اوپر دی گئی کہانی ہمارے رویےکی ایک سیدھی سی مثال ہے۔ آپ ایک سیدھی لکیر کھینچیں اور اس لکیر کے درمیان میں کچھ ایسی گنجل اور ٹیرھی لکیریں بنائیں جو گھوم کر پھر سے سیدھی لکیر کی طرف آتی ہوں۔ اب آپ یہ سوچیں کہ انسان لوہے کی دھات کا بنا ہوا ہے اور اردگرد کے سارے گنجل اور ٹیرھے راستے مقناطیس ہیں جو کہ انسان کو انتہائی کشش کے ساتھ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اب سوچیں ایک ایسا انسان جس کی کوئی منزل ہی نہیں ہے جس نے اپنی زندگی کے مقصد کا تعین ہی نہیں کیا ہوا جس کو راستے کا اورنہ منزل کا پتہ ہے وہ کیا کرے گا؟ یقیناً وہ ہر اس راستے کی طرف کھیچا جائے گا جس کی کشش زیادہ ہوگی وہ ہر اس راستے کی طرف چل پڑے گا جس کو دنیا کامیاب راستہ کہے گی، دنیا کی نظر میں اگر چارٹرڈ اکاوئنٹنت یا انجینرنگ یا کوئی اور پیشہ نام نہادکامیابی کے دروازے ہیں تو انسان بلا اختیار انہی کی طرف کھیچا جائے گا کیونکہ اسکا اپنا کوئی مقصد یا اپنی کوئی منزل ہی نہیں ہےاپنی منزل اور اپنا راستہ انسان کے قدم مضبوط کر دیتے ہیں انسان کو دوسرے راستوں کی طرف کوئی دلچسپی ہی نہیں رہتی۔

دنیا کی کشش جس راستے کی طرف کھینچے گی انسان اپنی خوشی کو اپنی خواہش کو، اپنے سکون کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسی طرف چل پڑے گا کیونکہ وہ اسی راستے کو اپنے لئے راحت اور سکون کا ذریعہ سمجھے گا لیکن در حقیقت اس راستے میں وہ اپنا سکون، اپنی نیندیں، اپنا وقت سب کچھ برباد کر لیتا ہے اور اس بات کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب ان راستوں پر گھوم کر انسان اسی راستے کی طرف آنکلتا ہے جہاں سے سفر کا آغاز کیا ہوتا ہے کیونکہ انسان کے ہر عمل کا حتمی مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے خوشی اور اطمینان۔ انسان دنیا میں جو بھی کام کرتا ہے اس کا حتمی مقصد بار حال یہی اطمینان ہوتا ہے انسان اطمینان اور خوشی کو اطمینان اور خوشی کے لئے چھوڑ کر اطمینان اور خوشی کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے خوشی اور اطمینان کے حصول کے لئے ہم اپنا راستہ چھوڑ کر دنیا کے چنے ہوئے راستوں پر چلتے لگتے ہیں اور لٹ لٹا کر واپس اسی سیدھے راستے کی طرف آجاتے ہیں۔ زندگی کو مشکل بنانا انتہائی آسان اور آسان بنانا انتہائی مشکل ہے اگر انسان تھوڑی کوشش کر کے ان کشش والے راستوں کو نظر انداز کرتا ہوا اپنے سیدھے راستے پر چلتا رہے تو اطمینان دے زندگی بار حال اسکا مقدر بن جاتی ہے۔ اوپر دی گئی کہانی کو اپنی زندگی سے جوڑنے کی کوشش کریں تو پتہ چلےگا کہ وہ نیند جو پیڑ کے سائے میں بھی آسکتی ہے اسی نیند کو اے سی والے کمرے میں نرم بستر پر پورا کرنے لئے ہم زندگیاں ضائع کر دیتے ہیں اور جب خوبصورت گھر میں اے سی والے کمرے میں نرم بستر ملتا ہے تو عموماً عمر کا وہ حصہ شروع ہو چکا ہوتا ہے جس میں بیند کی گولیاں کھا کر بھی نیند کوسوں دور ہی رہتی ہے یا بے فکری کی نعمت سے محروم ہو کر اس لفظ سے ہی نا آشنا ہو جاتے ہیں۔