ایک مرتبہ شرابیوں کی اصلاح کے لئے کانفرنس منعقد کی گئی۔ تمام شرابیوں کو بلایا گیا اور ان کی اصلاح کے لئے ایک ماہر ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر نے سٹیج پر ایک تجربہ کیا، میز کے ایک طرف صاف پانی سے بھرا گلاس رکھا اور دوسری طرف شراب سے بھرا گلاس۔ قریب پڑے دو زندہ کینچوے اٹھائے اور دونوں گلاسوں میں ڈال دیے۔ سب انتہائی انہماک سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد پانی والے گلاس میں سے کینچوہ ہشاس بشاس باہر آگیا اور شراب سے بھرے گلاس والا کینچوہ فوراً ہی مر گیا۔ ڈاکٹر حاضرین کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا آپ لوگوں نے اس تجربے سے کیا سبق سیکھا ہے؟ ایک شرابی نے ہاتھ اٹھایا اور کہنے لگا اس سے یہ ثابت ہوا کہ شراب پینے سے پیٹ کے سارے کیڑے /کینچوے مر جاتے ہیں۔
انسانی دماغ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہر سوچ کو، ہر چیزکو، ہر نظریے کو اپنی سوچ میں ڈھالنے کا ہنر خوب جانتا ہے۔ اپنی عادتوں کو چھوڑنا قدرے مشکل کام ہے اس کا متبادل اور آسان حل یہ ہے کہ اردگرد کے ماحول کو اپنی عادتوں کے سانچے میں دیکھنا شروع کر دیا جائے۔ دلیلیں اور گنجائشیں نکال کر گدھے کو بکری کی کھال پہنا کر اپنے لئے حلال کر لیں۔ اردگرد پھیلے عجیب و غریب واقعات دیکھ کر میں سوچا کرتا تھا کہ انسان اللہ تعالی کی انتہائی نفیس اور خوبصورت تخلیق ہے یہ کیسے جانوروں سے بد تر حرکت کر کے زندہ رہتا ہوگا؟کیسے اپنا آپ آئینے میں دیکھتا ہوگا اور اگر دیکھتا بھی ہو گا تو اسے اپنا آپ کیسا دکھائی دیتا ہوگا؟ کیسے اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہوتا ہوگا؟ لیکن انسان یہ سب کچھ کر لیتا ہے۔ وہ زندہ بھی رہتا ہے۔ اس کواپنا آپ انتہائی خوبصورت بھی دکھائی دیتا ہے وہ ضمیر کی عدالت میں پیش ہو کر جھوٹی دلیلوں سے خود کو بے گناہ ثابت کر کے باعزت بری بھی کروا لیتا ہے۔ میں اکثر ایک بات انتہائی کثرت کے ساتھ کرتا ہوں اور شائد کرتا رہوں گا کہ ہر چیز کو اس کے اصلی چہرے کے ساتھ دیکھنا سیکھ لینا چاہیے اپنے تجربے کی بنیاد پر بنے نظریے کی عینک کو ہر وقت لگا کر رکھنے سے آپ خود حقیقت سے دن بدن دور ہوتے جاتے ہیں۔ ایک تجربہ کیجئے گا دو مختلف رنگوں کے شیشے کے گھروں میں دو مختلف انسانوں کو کچھ دنوں کے لئے رہنے دیں۔ وہ اس گھر سے باہر کی ہر چیز کو اسی رنگ سے دیکھیں گے جس رنگ کے شیشے ہوں گے کچھ دن تک تو وہ اس حقیقت کو مانتے رہیں گے کہ باہر کے رنگ ایسے نہیں جیسے انہیں دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وہ جس رنگ سے دنیا کو دیکھ رہے ہوں گے حقیقتاً وہ شیشے کا رنگ ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی رنگ ان کی زندگی کا حصہ بن جائیں گے اور وہ اسی کو حقیقت سمجھنے لگیں گے۔ اب آپ دیکھیں ایک ہی دنیا کو وہ دونوں مختلف رنگوں سے دیکھیں گے کیونکہ وہ مختلف رنگوں کے شیشوں سے ریکھ رہے ہیں۔ شیشوں کی جگہ آپ نظریے اور سوچ کو رکھ کر دیکھیے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ حقیقت کو بھی ہم اپنی سوچ اور اپنے نظریوں کے رنگوں سے دیکھتے ہیں اسی لئے حقیقت ہم سے بہت دور ہوتی ہے۔ آج سے صرف ایک کام کریں جس بھی لمحے آپ کو محسوس ہو کہ آپ صحیح ہیں اور دوسرا غلط، فوراً تصویرکا دوسرا، تیسرا، چوتھا سب رخ دیکھنے کی کوشش کریں اور یہ محسوس کریں کہ دوسرا اسی کام کو کس نظر سے دیکھ کر رہا ہے تصویر کے ہر رخ کو دیکھنے کے بعد کیا ہوا فیصلہ آپ کے ضمیر پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالے گا چاہے اس فیصلے سے آپ ہار ہی کیوں نہ جاہیں۔