زندگی میں کبھی کبھی بہت سارے رنگ ایک ساتھ ہی آجاتے ہیں۔ ان رنگوں میں ایسے رنگ بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں نہ تو ہم نے پہلے کبھی سنا ہوتاہے نہ دیکھا ہوتاہے اور نہ ہی کبھی ان رنگوں کو پہلے کبھی محسوس کیا ہوتاہے۔ ان خوبصورت رنگوں کو اپنے اتنا قریب دیکھ کر ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کیسے ان سب رنگوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیں؟، کیسے ان رنگوں سے زندگی کی کینوس پر یادوں کی خوبصورت پینٹگ بنا ئیں؟، کیسے ان رنگوں کو باد صبا کی طرح آنکھیں بند کر کے اپنے وجود میں سانس کی طرح اتاریں؟، کیسے ان رنگوں کو اپنی ذات کا حصہ بنا لیں؟ اور اسی طرح کبھی کبھی زندگی میں آسمان پہلے سے زیادہ وسیع اور خوبصورت نظرآنے لگتا ہے، بادل خوبصورت نظاروں میں ڈھل کر دل میں خوبصورت احساس پیدا کرتے رہتے ہیں۔ دور تک پھیلے افق پر بادلوں کی شرارتیں بڑی بھلی محسوس ہوتی ہیں، دل کرتا ہے یہ تمام شرارتیں زندگی میں ہمیشہ کی ساتھی بن جائیں۔ اور اسی طرح سوکھے درخت جو کبھی یونہی بیٹھے بیٹھے اداس وادی میں دھکیل دیتے ہیں نظروں کی ٹھنڈک کا احساس بن جاتے ہیں، ان سے گرتے پتے دیکھ کر ہجر کے احساس کی بجائے وصل کا گمان ہونے لگتا ہے جیسے یہ پیلے پتے درختوں سے ٹوٹ کر آزاد ہوئے ہوں، جیسے یہ پیلے پتے درختوں کے تھے ہی نہیں یہ تو مٹی میں جانے کو بے تاب تھے۔ اور اسی طرح پہاڑوں کی اوٹ میں وہ ڈوبتا سورج بھی اچھا لگنے لگتا ہے جو ڈوبتا سورج دیکھ کر کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ سورج اپنے وجود میں اتر کر اپنی زندگی کی شام کر رہا ہے، جیسے یہ سورج اپنے وجود میں ڈوب کر ہمیں اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔ اور اسی طرح وہ سفر بھی اچھا لگنے لگتاہے جس کی کوئی منزل ہی نہیں ہوتی اور ہم چلتے جاتے ہیں کسی سمت کے بغیر، کسی راستے کے بغیر، کسی رفتار کے بغیراورکسی ہمسفر کے بغیر۔ اور اسی طرح وہ لوگ بھی اچھے لگنے لگتے ہیں جو کبھی دل کو اچھے نہیں لگتے، وہ لوگ جنہوں نے ہماری زندگی کے چراغ کو منہ سے بجھانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ہوتا، وہ لوگ جن کی نفرت اگ کی گرمی کی طرح کبھی کبھی سب کچھ راکھ کر دیتی ہے۔ اور اسی طرح سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے بہت اچھا لگنے لگتا ہے۔
یہ احساس انسانی سرشت کا حصہ ہے، انسان سب کچھ اپنے دامن میں سمیٹنا چاہتا ہے، بہت کچھ ایک ساتھ دیکھ کر جبلت میں پوشیدہ لالچ فوراً سر اٹھا کر اپنا آپ منوانے میں لگ جاتی ہے۔ اسی طرح زندگی میں بڑی مدت کے بعد بہت ساری خوشیاں ایک ساتھ دیکھ کر، زندگی میں اپنے اردگرد پھیلے بہت سارے رنگ دیکھ کر میرے اندر کے پیاسےلالچی انسان نے بھی سر اٹھا لیا ہے اور وہ بھی اپنا آپ منوانے کی جستجو میں لگ گیا ہے۔ وہ بھی چاہتا ہے یہ سارے رنگ، یہ ساری خوشیاں، یہ سارے احساسات ایک ساتھ ہی اپنےدامن میں سمیٹ لئے جائیں، کیونکہ اس صورت حال میں تغیرات زندگی کی بہت تلخ حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں تغیرات کی حقیقت کو تسلیم کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس صورت حال میں جی چاہتا ہے کہ سر ریت میں دے کر آنے والے طوفان سے بے خبر ہو جایا جائے۔ لیکن بار حال یہ زندگی کا پہیہ ہے اسکا رخ اگر خوشیوں کی طرف ہوتا ہے تو اسکو اداسی کی طرح بھی لازمی جانا ہوتا ہے اور یہ ضروری بھی ہے اسی طرح قدوقیمت کا احساس جس کو نیم مردہ حالت میں ہم نے احساسات کے قبرستان میں دفنا دیا ہوتا ہے اہستہ اہستہ سر اٹھانے لگتا ہے جس کے بعد خوشیاں ضرب ہو ہمارے اندر داخل ہوتی ہیں۔